نیویارک میں اقوامِ متحّدہ کے مرکزی دفاتر میں برپا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 64 ویں اجلاس سے پاکستان کے صدر عزّت مآب جناب آصف علی زرداری نے اپنی شریک حیات محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر پیش منظر میں رکھ کر خطاب کیا۔
جنابِ آصف علی زرداری نے جوہری جمہوری پاکستان کے صدر کی حیثیت ہے ’جوہری عدم توسیع‘ پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم سب کے لئے ’تحفظ کے یکساں مواقع‘ پر یقین رکھتے ہیں!!، انہوں نے مزید فرمایا ’ ہم اسلحہ کے پھیلاؤ پر قابو پانے، غیر مسلّح کرنے اور ایٹمی پھیلاؤ روکنے کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں!۔
جناب زرداری نے پاکستان میں جمہوریت، ’ قابلِ بقا‘ بنانے تمام جمہوری ممالک سے پاکستان کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کے لئے ’Do More‘ کا نعرہ بلند کیا اور افغان مہاجرین کی میزبانی پر اٹھنے والے اخراجات سے لے کر ’اندرونِ ملک مہاجرت‘ اور ’گھروں کو واپسی‘ پر ’خرچ کا تخمینہ‘ بتائے بغیر انہیں پاکستان کے لئے زیادہ امداد مہیا کرنے کی اپیل بھی کردی!
البتہ انہوں نے ’ دہشت‘ کے ساتھ ساتھ ’ مسلّح جدوجہد‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے سے وابستہ کر دیا اور ان دونوں کی گرد ایک ساتھ اڑا دی!۔
مسلّح جدوجہد صرف آزادی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف جائز سمجھی جاتی تھی! پورے یورپ کے عوام نے ’قابض جرمن فوج‘ کے خلاف یہ جدوجہد کی اور نازی جرمن کے مقبوضہ علاقوں میں انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ’ویت نام‘ میں بھی یہی تاریخ دوہرائی گئی، اْس سے پہلے ’کوریا‘ میں بھی یہی کچھ ہوا، جنوبی ویت نام اور شمالی ویت نام، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا اسی ’جنگ‘ اور ’جدوجہد‘ کی علامتیں تھیں، ’ویت نام‘ ایک ہو کر ایک بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھرا تو جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان رابطے شروع ہوئے اور ’جنوبی کوریا‘ ریاست ہائے متحدہ کے لئے ’مشکوک‘ قرار پا گیا! جناب بان کی مون کی سیکرٹری جنرل شپ اس شک پر پردہ، ڈالے رکھنے کی ایک کوشش تھی!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب براک اوباما نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام دنیا سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ یہ ’بارِ دہشت‘ اکیلا نہیں اٹھا سکتا! اور یوں انہوں نے ’یورپی یونین‘ کے وسائل بھی اس ’جنازے‘ کی راکھ اڑانے کی خاطر ’جنگ کی بھٹی‘ میں جھونک دینے کی درخواست کی تھی! ہم نے ’ دہشت گردی‘ اور ’مسلح جدوجہد‘ ایک کر کے دکھا دئیے اور یوں آزادی کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ لینے والوں کی بیخ کنی کا چارٹر بھی پیش کر دیا!۔
’جوہری عدم توسیع‘ ایک عالمگیر چارٹر ہے، اس میں ’جوہری صلاحیّت ہاتھ سے رکوا لینے، کا ذکر کہیں نہیں تھا، البّتہ جوہری صلاحیت کی ’چوری چوری خرید و فروخت‘ یقیناً ممنوع قرار دے دی گئی تھی! جنابِ آصف علی زرداری نے اس باب میں بھی ایک ’ہولناک شق‘ کا اضافہ کر دیا! شاید یہی بات ہے کہ کچھ ’وِگ پوش احراری قافلے‘ بھارت سے دوستی اور دونوں ممالک پر ایٹمی ہتھیار تج دینے کی باتیں ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پھیلاتے دیکھے جاتے رہے ہیں!
قاف لیگ کے ’ تھنک ٹینکس‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ’جیالے‘ ہم آواز ہیںٖ! ’جیالوں‘ کے لئے تو صرف زرداری کے لئے لب ہلانا ہی کافی نہیں مگر وہ اس سلسلے میں ابھی تک یہ بات نہیں کر سکے لہٰذا وہ فی الحال قاف لیگ کو اپنا ’فطری ساتھی‘ سمجھتے ہوئے ’ایٹمی جنگ‘ سے بچنے کے لئے ’قاف خندقوں‘ میں پناہ گیر ہوگئے ہیں، ان بے چاروں کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکی کہ ’ایٹمی اسلحہ‘ ضبط کرنے کا ایجنڈا ایشیاء میں جدید ترین ’روایتی اسلحہ‘ ’بازار‘ لگا کر ایشیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا لازم کر چکا ہے کیونکہ پوری دنیا کا ترقی پا جانا ’باقی دنیا‘ یعنی ’امریکہ‘ کے لئے بہت بڑی دشواریاں پیدا کر سکتا ہے! عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے ایک ’عالمی کرنسی‘ کے اجراء کی تجویز اسی لمحے کو ٹالنے کی کوشش کہی جا سکتی ہے!۔
امریکی سینٹ نے لوگر۔ کیری بل میں ایک کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ تاکہ پاکستان آنے والی امداد کے آڈٹ ، جانچ، پرکھ، پرچول پر متعین حکام کے اخراجات امریکہ کے پلّے رہیں‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جناب شوکت ترین فرما رہے ہیں: امریکی امداد تو محدود مقاصد کے لئے آ رہی ہے لہٰذا ہمیں آئی ایم ایف سے ہی قرضہ لینا پڑے گا! مگر اصل بات کیا ہے؟ تو جناب مصدّقِ لاکھانی کہہ رہے ہیں!
زبانوں پر سوال آئے نہ آئے....... مگر ذہنوں میں پیدا ہو چکا ہے
جنابِ آصف علی زرداری نے جوہری جمہوری پاکستان کے صدر کی حیثیت ہے ’جوہری عدم توسیع‘ پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم سب کے لئے ’تحفظ کے یکساں مواقع‘ پر یقین رکھتے ہیں!!، انہوں نے مزید فرمایا ’ ہم اسلحہ کے پھیلاؤ پر قابو پانے، غیر مسلّح کرنے اور ایٹمی پھیلاؤ روکنے کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں!۔
جناب زرداری نے پاکستان میں جمہوریت، ’ قابلِ بقا‘ بنانے تمام جمہوری ممالک سے پاکستان کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کے لئے ’Do More‘ کا نعرہ بلند کیا اور افغان مہاجرین کی میزبانی پر اٹھنے والے اخراجات سے لے کر ’اندرونِ ملک مہاجرت‘ اور ’گھروں کو واپسی‘ پر ’خرچ کا تخمینہ‘ بتائے بغیر انہیں پاکستان کے لئے زیادہ امداد مہیا کرنے کی اپیل بھی کردی!
البتہ انہوں نے ’ دہشت‘ کے ساتھ ساتھ ’ مسلّح جدوجہد‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے سے وابستہ کر دیا اور ان دونوں کی گرد ایک ساتھ اڑا دی!۔
مسلّح جدوجہد صرف آزادی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف جائز سمجھی جاتی تھی! پورے یورپ کے عوام نے ’قابض جرمن فوج‘ کے خلاف یہ جدوجہد کی اور نازی جرمن کے مقبوضہ علاقوں میں انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ’ویت نام‘ میں بھی یہی تاریخ دوہرائی گئی، اْس سے پہلے ’کوریا‘ میں بھی یہی کچھ ہوا، جنوبی ویت نام اور شمالی ویت نام، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا اسی ’جنگ‘ اور ’جدوجہد‘ کی علامتیں تھیں، ’ویت نام‘ ایک ہو کر ایک بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھرا تو جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان رابطے شروع ہوئے اور ’جنوبی کوریا‘ ریاست ہائے متحدہ کے لئے ’مشکوک‘ قرار پا گیا! جناب بان کی مون کی سیکرٹری جنرل شپ اس شک پر پردہ، ڈالے رکھنے کی ایک کوشش تھی!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب براک اوباما نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام دنیا سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ یہ ’بارِ دہشت‘ اکیلا نہیں اٹھا سکتا! اور یوں انہوں نے ’یورپی یونین‘ کے وسائل بھی اس ’جنازے‘ کی راکھ اڑانے کی خاطر ’جنگ کی بھٹی‘ میں جھونک دینے کی درخواست کی تھی! ہم نے ’ دہشت گردی‘ اور ’مسلح جدوجہد‘ ایک کر کے دکھا دئیے اور یوں آزادی کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ لینے والوں کی بیخ کنی کا چارٹر بھی پیش کر دیا!۔
’جوہری عدم توسیع‘ ایک عالمگیر چارٹر ہے، اس میں ’جوہری صلاحیّت ہاتھ سے رکوا لینے، کا ذکر کہیں نہیں تھا، البّتہ جوہری صلاحیت کی ’چوری چوری خرید و فروخت‘ یقیناً ممنوع قرار دے دی گئی تھی! جنابِ آصف علی زرداری نے اس باب میں بھی ایک ’ہولناک شق‘ کا اضافہ کر دیا! شاید یہی بات ہے کہ کچھ ’وِگ پوش احراری قافلے‘ بھارت سے دوستی اور دونوں ممالک پر ایٹمی ہتھیار تج دینے کی باتیں ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پھیلاتے دیکھے جاتے رہے ہیں!
قاف لیگ کے ’ تھنک ٹینکس‘ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ’جیالے‘ ہم آواز ہیںٖ! ’جیالوں‘ کے لئے تو صرف زرداری کے لئے لب ہلانا ہی کافی نہیں مگر وہ اس سلسلے میں ابھی تک یہ بات نہیں کر سکے لہٰذا وہ فی الحال قاف لیگ کو اپنا ’فطری ساتھی‘ سمجھتے ہوئے ’ایٹمی جنگ‘ سے بچنے کے لئے ’قاف خندقوں‘ میں پناہ گیر ہوگئے ہیں، ان بے چاروں کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکی کہ ’ایٹمی اسلحہ‘ ضبط کرنے کا ایجنڈا ایشیاء میں جدید ترین ’روایتی اسلحہ‘ ’بازار‘ لگا کر ایشیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا لازم کر چکا ہے کیونکہ پوری دنیا کا ترقی پا جانا ’باقی دنیا‘ یعنی ’امریکہ‘ کے لئے بہت بڑی دشواریاں پیدا کر سکتا ہے! عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے ایک ’عالمی کرنسی‘ کے اجراء کی تجویز اسی لمحے کو ٹالنے کی کوشش کہی جا سکتی ہے!۔
امریکی سینٹ نے لوگر۔ کیری بل میں ایک کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ تاکہ پاکستان آنے والی امداد کے آڈٹ ، جانچ، پرکھ، پرچول پر متعین حکام کے اخراجات امریکہ کے پلّے رہیں‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جناب شوکت ترین فرما رہے ہیں: امریکی امداد تو محدود مقاصد کے لئے آ رہی ہے لہٰذا ہمیں آئی ایم ایف سے ہی قرضہ لینا پڑے گا! مگر اصل بات کیا ہے؟ تو جناب مصدّقِ لاکھانی کہہ رہے ہیں!
زبانوں پر سوال آئے نہ آئے....... مگر ذہنوں میں پیدا ہو چکا ہے