فیصل آباد (رپورٹ احمدکمال نظامی) سانحہ کلرکہار میں درجنوں گھروں کے چراغ بجھ گئے، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے ایسا کرنا حکومت کیلئے ناگزیر ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف سانحہ میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے لئے گذشتہ رات گیارہ بجے کے قریب راولپنڈی سے فیصل آباد پہنچے اور انہوں نے الائیڈ ہسپتال اور سول ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں زیرعلاج کلرکہار کے ٹریفک حادثہ میں زخمی ہونے والے ملت گرائمر سکول کے بچوں کی عیادت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ زخمی طلباءکے علاج معالجہ میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ شہبازشریف اپنے مختصر دورے کے بعد واپس لاہور چلے گئے۔ مختصر دورے کے دوران وہ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے طالب علم بچوں میں سے کسی کے گھر تعزیت کیلئے نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے الائیڈ ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین کے خراب ہونے کا کوئی نوٹس لیا۔ اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے طلباءکی اکثریت سر میں شدید چوٹیں آنے سے ہلاک ہوئی اور اکثر زخمی طلباءسر کی چوٹوں کی وجہ سے بے ہوش بھی ہیں۔ ان میں سے 8 شدید زخمی طلباءکوالائیڈ ہسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن سی ٹی سکین مشین خراب ہونے کی وجہ سے طلباءکے لواحقین کو شدید دشواری اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ان شدید زخمی بچوںکو سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کا بڑا ہسپتال ہے اور اس کی سی ٹی سکین مشین کا خراب ہونا سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ہسپتال انتظامیہ کی نااہلی اور غفلت مجرمانہ کی غمازی بھی کرتا ہے۔ شہبازشریف کا اس سنگین غفلت مجرمانہ کا نوٹس نہ لینا بھی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے جبکہ وہ عیادت کرنے کے بعد کہہ رہے تھے کہ حادثہ میں ہلاک ہونے والے طلباءکے لواحقین کو امداد دینے پر بھی غور کر رہے ہیں لیکن سانحہ کلرکہار ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہونے والے طلباءکے والدین کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی قسم کی امدادی قم کی ضرورت نہیں ہمارا تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ یہ سانحہ جن کی غفلت اور فرائض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پیش آیا حکومت قانون کوحرکت میں لاتے ہوئے ان کو قرارواقعی سزا دے۔ شہبازشریف نے تین رکنی کمیٹی جبکہ موٹروے پولیس نے بھی پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے اپنی انکوائری کا آغاز کر دیا ہے اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق موٹروے پولیس کے ایک اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے جس نے بس کو موٹروے پر چڑھنے کی اجازت دی تھی۔ یہ فیصل آباد ہی نہیں پاکستان کی تاریخ کا واحد ٹریفک حادثہ ہے جس میں ایک ہی تعلیمی ادارے کے طلباءکی اتنی بڑی تعداد آناً فاناً موت کی وادی میں پہنچ گئی۔ جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کی میتیں نماز جنازہ کے لئے ملت ٹاون، دھنولہ، گوکھوال اور بہاری کالونی میں لائی گئیں ان معصوموںکے جنازوں کے ساتھ ان کی مائیں، بہنیں، بھائی، والد اور دوسرے عزیز بھی تھے۔ جو مرغ بسمل کی طرح تڑپتے ہوئے قدم بہ قدم ایک دل ہلا دینے والی چیخ اور بین کے ساتھ اپنے پیارے کا جنازہ اٹھائے ہوئے تھے۔ معصوم طلباءکے جنازوں کے منظر ہر شخص کا جگر چھلنی کر رہے تھے۔ موت ہر رنگ میں دل فگار ہوتی ہے لیکن بچوں اور نوعمروں کی ایک ناگہانی حادثہ کی صورت میں موت تو فلک کو بھی لرزا دیتی ہے۔ جن میدانوں میں معصوم طلباءکی نماز جنازہ کرائی گئی۔ ان میں شریک ہر شخص ماتم کناں تھا۔ معصوم طلباءکی مائیں، بہنیں ہی نہیں بین کررہی تھیں بلکہ فضا بھی رو رہی تھی۔ فلک رو رہا تھا اور یہ رونا تو اب معصوم طلباءکے لواحقین کا مقدر قرار پا چکا ہے جو ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے اس ابتدائی رپورٹ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کہ جو بس حادثہ کا شکار ہوئی وہ نہ صرف پرانی تھی اور اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ پولیس سے سازباز کر کے حاصل کیا گیا تھا اور بس ڈرائیور بھی ناتجربہ کار تھا جو اپنی زندگی کے ساتھ معصوم زندگیوں کے چراغ بھی گل کر گیا، موٹروے پولیس کو کسی طور بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، ناکارہ اور اوورلوڈ بس کو موٹروے پر چڑھانے کی اجازت دینا ہی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ موٹروے پولیس نے قوانین پر عملدرآمد کرانے میں غفلت کا مظاہرہ کیا اور ان کی یہی غفلت معصوموں کے قبرستان کی بنیاد بنی۔ وزیراعلیٰ نے اس حادثہ کی جامع رپورٹ مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تو قائم کر دی ہے عام طو رپر ایسی کمیٹیاں ایک رسمی سی رپورٹ مرتب کر کے اپنے فریضے سے سبکدوش ہو جاتی ہیں اور پھر یہ رپورٹ سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن جائے گی لیکن سانحہ کلرکہار پر روایت شکنی کی صورت ہے اب ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں معصوم طلباءکی المناک موت بہت بڑا سانحہ ہے جسے عکس بند کرتے ہوئے کیمرے کی ظالم آنکھ بھی رو پڑی۔ قانون قاعدہ اور ضابطے موجود ہیں لیکن نظام کرپشن، بدعنوانی اور نااہلیت میں لتھڑا ہوا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو 74 ماڈل کی بس کو 94 ماڈل قرار دے کر فٹنس کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا جاتا اور نہ ہی اوورلوڈبس کو موٹروے پر سفر کرنے کی اجازت دی جاتی۔