احتجاج کا حق‘ قومی وقار کے تقاضے اور میڈیا کا کردار

حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ اس وقت پورے پاکستان میں واحد ادارہ ہے جو ہر قسم کے موضوعات پر صحافیوں کی تربیت اور معاشرے میں صحت مندانہ معلومات فراہم کرنے میں اپنا فعال کردا رادا کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں احتجاج کا حق، قومی وقای کے تقاضے اور میڈیا کا کردار کے موضوع پر ایک فکر انگیز نشست ہوئی۔ اس موضوع پر مقررین میں ممبر صوبائی اسمبلی آمنہ الفت، تجزیہ نگار فرخ سہیل گوئندی اور سید شعیب الدین احمد شریک تھے۔ صدارت کے فرائض سابق وزیر خارخہ سردار آصف احمد علی نے ادا کئے جبکہ مہمان خصوصی سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات طارق عظیم تھے۔
سیمینار کے میزبان ابصار عبدالعلی نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بتایا: یو ٹیوب پر ایک نفرت انگیز فلم جاری ہے، یہ فلم بین المذاہب ہم آہنگی کے خلاف سوچی سمجھی سازش، مندرجات اور مناظر کے لحاظ سے شیطانی کارروائی اور مصدقہ عالمی انسانی حقوق کے تناظر میں انتہائی شرانگیز عمل ہے۔ بادی النظر میں اس فلم کا مقصد مذہبی بنیادوں پر دنیا کو تقسیم کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہی صرف تنہا مقصد نہیں ہے۔ یہ فلم عربی زبان میں ڈب کی گئی تاکہ عرب دنیا میں احتجاجی مظاہروں، توڑ پھوڑ اور بدامنی کے ذریعہ امریکی مفادات اور صیہونی غلبہ کی جڑیں مضبوط کی جائیں۔ پاکستان میں سوچ سے بھی زیادہ پُرتشدد اور لوٹ مار سے بھرپور احتجاج ہوا۔
آمنہ الفت نے تجزیہ کرتے ہوئے بتایا: سب کچھ تعلیم کی کمی ہے، غربت اور بے روز گاری نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ بحران در بحران پیدا ہو رہے ہیں، روپوں کے بحران سے لے کر معاشی بحران تک کسی پر بھی قابو نہیں پایا جا رہا۔ شعیب احمد نے کہا کہ تربیت کرنی پڑے گی۔ اپنے آپ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور احتجاج توازن کے ساتھ کرنا چاہیے۔ سہیل گوئندی نے بتایا: قو میں سونے چاندی سے نہیں بلکہ علم سے ترقی کرتی ہیں۔ اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ علم اور متوازن معاشرے کی وجہ سے پھیلا۔ پاکستان میں سیاسی بحران نہیں صرف عقل و شعور کا بحران ہے۔ علامہ اقبال کی صرف شاعری ہی نہ پڑھی جائے بلکہ نثر بھی پڑھیں۔ بہترین راہنمائی نصیب ہوتی ہے۔
مہمان خصوصی طارق عظیم نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بہت فرق پیدا ہو گیا ہے۔ پرنٹ میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کو اپنی اتھارتی کا علم تو ہے لیکن ذمہ داری کی حدود کا تعین کرنا نہیں آتا۔ بریکنگ نیوز کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے۔ بوندا باندی بھی اب بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ مغربی دنیا میں بھی سیاستدان میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہیں اور جس بات کا جواب دینا اچھا نہیں سمجھتے اس سوال پر ”نو کمنٹ“ کہہ دیتے ہیں لیکن یہاں اگر کوئی ”نو کمنٹ“ کہہ بھی دے تو پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ پاکستان کا دنیا میں ایک اچھا امیج پیدا کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے کیونکہ یہود و ہنود نے پاکستان کا مثبت امیج تخلیق نہیں کرنا۔ دنیا بھر میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے جی ایٹ کا اجلاس ہو یا آئی ایم این کا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے کون ہیں۔ ہمارے لیڈر ہڑتال اور جلوس کی کال تو دے دیتے ہیں لیکن عین وقت پر خود غائب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جلوس میں نظم و ضبط باقی نہیں رہتا اور شرپسند جلوس کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔
صدر مجلس نے بجث سمیٹتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو تشدد نہیں دکھانا چاہیے کیونکہ تشدد مزید تشدد کو فروغ دیتا ہے۔ میں ترکی اور قبرص کے دورے پر تھا جب یہ سب کچھ ہوا۔ میرے مسلمان ترک دوستوں نے کہا کہ کیا پاکستان خود کشی کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ نماز کے وقت ہماری مسجدیں بھری ہوئی ہوتی ہیں لیکن اپنا نقصان کرنا احتجاج کی کون سی قسم ہے۔ ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ صرف معیشت کی ترقی سے ہی ہم ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں۔ انتہا پسندی سے تو صرف ملک و قوم کا نقصان ہی نقصان ہے۔ تعلیم اور نصاب کو بہتر بنانے سے پاکستان مضبوط ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ دانشورانہ انداز میں ہر بات کا جواب دینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...