فرقہ واریت کی حقیقت اور نقصانات

انسان کو سب سے زیادہ نقصان دشمنی نے پہنچایا۔ کیونکہ اکثر و بیشتر اس کے آغاز سے پہلے یہ نہیں سوچا جاتا کہ جو کام صلح و صفائی سے ہو سکتا تھا اس پر طاقت ضائع کیوں کی اور اپنا جانی و مالی نقصان کیوں کیا۔ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے مخالف سے مثبت انداز میں بات کر لینی چاہئے۔ اگر اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو اسوہ حسنہ یہی ہدایت کرتی ہے کہ معاملے کو امن و سکون سے طے کر لو۔ جنگ ایک آخری آپشن ہے بلکہ مجبوری ہے جس کی نوبت کم ہی آنی چاہئے۔ اگر انسانوں نے اس طرز عمل کو اختیار کیا ہوتا تو آج دنیا کے اکثر لوگ اذیتوں میں مبتلا نہ ہوتے اور بولنے سے پہلے تولنے کا اصول تو اس قدر مفید ہے کہ ڈھائی تولے کی زبان بند رکھنے سے ہمالہ جتنے مصائب ٹل جاتے ہیں۔ ہم یہاں مثال کے طور پر فرقہ واریت کے حوالے سے ایک چھوٹی سی بات کرتے ہیں کہ آخر اس کی داغ بیل کیسے پڑی۔ جب یونان کی تہذیب و تمدن، علوم و فنون روم کو منتقل ہوئے، پھر روم سے یہ عربی میں ترجمہ ہو کر اسلامی دنیا میں عام ہوئے تو مختلف عقلی و فکری مباحث چھڑ گئے۔ اہلِِ علم نے ان کے جوابات دئیے اور اپنی رائے کا نیک نیتی سے اظہار بھی کیا۔ اس طرح مسلم امہ میں بالخصوص دین کے اعتبار سے مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے جو فروعی اور غیر بنیادی معتقدات کے بارے بیان کئے گئے اور اس میں کئی تھنک ٹینک وجود میں آ گئے۔ منفی ذہنیت رکھنے والوں اور کچھ بیرونی مخالفین نے جلتی پر تیل ڈالا۔ یہ اختلاف جو صرف علمی و فکری تھا جنگل کی آگ بن گیا اور چارسو پھیل گیا اور بڑھتے بڑھتے یہ باقاعدہ الگ فرقوں کی صورت اختیار کر گیا اور مختلف فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنا اپنا علم کلام اور طرزِ استدلال اختیار کر لیا۔ امت کی کئی صدیاں اس اختلاف کی نذر ہو گئیں اور غیر مسلم قوتیں فرقہ واریت سے دور رہتے ہوئے مختلف علوم و فنون کے میدانوں میں شبانہ روز محنت کرتے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے سائنسی کام سے بھی استفادہ کیا اور یوں آج یہ دن آ گیا کہ ہمارے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہر فرقہ اس کی مسجد اور مدرسہ الگ الگ طور پر قائم ہو گیا۔ کئی لوگ تو دوسرے فرقے کے امام کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے۔ یہی دینی انتشار پھیلتے پھیلتے سیاسی انتشار کی صورت اختیار کر گیا اور جملہ اسلامی ممالک میں اغیار نے اپنی پسند کے حکمران بڑی بڑی لالچیں دے کر کاشت کر لئے۔ اس طرح عوام اور حکمرانوں میں فاصلہ بڑھتا گیا۔ حکمران اپنی ذاتی اغراض کے لئے اور عوام اپنی محرومیاں دور کرنے کے لئے اپنے اپنے اختیار اور استطاعت کے مطابق غلط راستوں پر چل نکلے۔ ایسے راستے کہ جن کی منزل صرف ذاتی مفاد تک محدود رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم امہ مروجہ علوم میں پیچھے رہ گئی اور مغرب نے سائنسی علوم میں اتنی ترقی کر لی کہ آج ہم ان کو برا بھی کہتے ہیں اور 24 گھنٹے ان ہی کی ایجادات، ادویات اور دیگر روزمرہ کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں اور حیرانی ہے کہ اس کے باوجود یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں غیر مسلموں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ یہ دنیا اللہ کی ہے یہاں یہ تفریق بھی درست نہیں کہ ایک انسان کو صرف مذہبی فرق کے حوالے سے نظرانداز کر دیا جائے یا اس کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے۔ آج وہ ترقی یافتہ ممالک جو اللہ کے وجود یا اسلام کے منکر ہیں، اللہ نے ان کی ترقی و خوشحالی کو روکا نہیں کیونکہ وہ اپنی مخلوق کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے۔ کراچی، بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل و غارت میں ہمارے ان دینی رہنماﺅں کی بھی کوتاہی ہے کہ انہوں نے کبھی عوام کو اپنے خطبوں میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی حقیقت نہیں بتائی۔ فرقہ واریت سے ہم نے جتنا نقصان اٹھایا اتنا ہی دشمنان اسلام نے فائدہ حاصل کیا۔ علماءدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں قائم نہ کریں اور نہ اللہ کے گھر کے دروازے پر یہ لکھیں کہ یہ فلاں فرقے کی مسجد ہے۔ گویا مسجد کو بھی بانٹ دیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے ایک عیسائی کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت کی اجازت دی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ عبادت گاہیں مشترک ہوتی ہیں۔ ہر مذہب و دین کا پیروکار کسی بھی معبد میں اپنے انداز میں عبادت کر سکتا ہے۔ اسلام کے پھیلاﺅ میں یہ فرقہ بندی بہت زیادہ رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اسے بھی فرقوں کے حوالے سے مسلمان کیا جاتا ہے گویا نو مسلموں کو بھی فرقہ واریت کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے تو اس آیت کریمہ سے فرقوں کی مکمل نفی ہو جاتی ہے۔ آج تک بے شمار مسلمان فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اب کراچی میں سیاسی فرقہ واریت کو مذہبی فرقہ واریت نے اور تیز کر دیا ہے۔ حکومت، عوام، علماءکرام غور کریں اور اس فتنے کا سدباب کریں۔

ای پیپر دی نیشن