سانگلہ ہل کے نظامی خاندان نے تحریک پاکستان میں اور قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی بقا، تعمیر و ترقی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تحریک پاکستان، قیام پاکستان، تعمیر پاکستان، تکمیل پاکستان تحریک اور مشاہیر پاکستان کا جب بھی تذکرہ ہو گا حمید نظامی مرحوم کا نام نمایاں طور پر سامنے آئے گا، انہی کے چھوٹے بھائی مرحوم بشیر نظامی تھے۔
بشیر نظامی مرحوم کو خدا تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا وہ بیک وقت شعلہ بیان مقرر، مخلص سیاسی و سماجی رہنما، سچے عاشق رسول اور سب سے بڑھ کر ایک نڈر، کھرے اور پختہ کار مسلم لیگی تھے۔ زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں، وطن عزیز پر کئی بار مشکلات آئیں، حالات نے پلٹے کھائے، بڑے بڑے جُغادری سیاستدان قلابازیاں کھانے لگے مگر بشیر نظامی مرحوم کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی، وہ اول سے آخر تک مسلم لیگی رہے۔ وہ بیک وقت ایک اخبار نویس بھی تھے اور نیوز ایجنٹ بھی۔ وہ مسلمانوں میں شعور وطن اور اہمیت وطن کو اجاگر کرنے کی غرض سے نوائے وقت کو ہندو¶ں کے ظالم ہاکروں، پرتاب اور ویر بھارت جیسے متعصب پرچوں کے ہاکروں کے مقابلے میں پوری جرا¿ت اور بے باکی سے فروخت کیا کرتے تھے۔ برصغیر میں اکثریت بھی ہندو¶ں کی تھی اور انتظامیہ میں بات بھی انہی کی سُنی جاتی تھی ایسے میں کسی شخص کا یہ جرا¿ت مندانہ کردار کسی غیبی سہارے کے بغیر ممکن نہ تھا۔ سچائی اور بھلائی میں ہمیشہ خدا کی مدد شامل حال رہتی ہے جو بشیر نظامی مرحوم کو یقیناً حاصل تھی۔ علم دوستی بشیر نظامی مرحوم کا محبوب مشغلہ تھا، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے خلیل بک ڈپو کے نام سے سانگلہ ہل میں کتابوں کی ایک دکان کھول رکھی تھی جس کے ذریعے وہ علاقہ میں اپنے عظیم مخصوص مقاصد جو خدا تعالیٰ نے ان کے ذمہ لگا رکھے تھے حاصل کیا کرتے تھے۔ کہنے کو تو وہ خلیل بک ڈپو ایک چھوٹی سی دکان تھی مگر درحقیقت اپنے پروگرام اپنے ایجنڈے اور قیام پاکستان کے لئے تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان جیسے منصوبوں کے لحاظ سے وہ پاکستان کا ایک سب آفس تھا۔
بشیر نظامی مرحوم 1930ءکے عشرے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں میں شامل ہو گئے تھے اور ضلع شیخوپورہ ضلع فیصل آباد (ان دنوں لائل پور) سمیت پنجاب بھر کے متعدد دیہات میں بہت سارے دیگر مسلم لیگی کارکنوں کے ہمراہ وہ جلسے اور کارنر میٹنگز منعقد کر کے اپنی پُراثر اور جذباتی تقریروں سے ان دیہاتی مسلمان بھائیوں کو مسلم لیگ اور بابائے قوم حضرت قائداعظم کا پیغام پہنچاتے رہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بشیر نظامی مرحوم نے تحریک ختم نبوت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تحریک پاکستان ہی کی طرح متحرک ہو گئے۔ اسی تحریک کی بدولت ان کے آغا شورش کاشمیری اور مولانا تاج محمود اور دیگر مشاہیر ختم نبوت کے ساتھ گہرے مراسم استوار ہو گئے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ اس دوران شاہی قلعہ اور کیمبل پور جیل میں بھی قید رہے۔ مرحوم بشیر نظامی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تحریک بحالی جمہوریت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد بشیر نظامی مرحوم نے مہاجرین کی آباد کاری کا بیڑہ اٹھایا، دن رات کام کیا، اپنی صحت تک کا خیال نہ رکھا، بے گھر لُٹے پُٹے اور پریشان محب وطن مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ دلانے کے لئے حکام مجاز سے مدد دلائی، آخر وقت تک اپنے اس مشن سے نہیں ہٹے۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ ساری زندگی لوگوں کے کام آنے والے اور بے گھروں کو گھر دلانے اور بسا کر خوشیاں بانٹنے والا یہ مرد درویش بشیر نظامی اپنے لئے ایک مرلہ زمین بھی نہ لے سکا اور یونہی ساری زندگی گزار دی۔ سانگلہ ہل سے فیصل آباد رہائش پذیر ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد اُن پر فالج کا حملہ ہو گیا لیکن انہوں نے جرا¿ت سے اس کا مقابلہ کیا۔ ہمت نہیں ہاری، گھر پر ہی علاج جاری رکھا اور خدا کے فضل سے چند ماہ کے اندر صحت یاب ہو گئے۔ صحت یاب ہو جانے کے بعد انہوں نے اپنے معمولات پر توجہ دینی شروع کر دی۔ وہ روزانہ یہاں سے سانگلہ ہل جاتے اور اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ محفل سجاتے۔ احباب بتاتے ہیں کہ وہ جمعة المبارک کا دن سانگلہ ہل میں گزارتے۔ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے پرانے دوستوں اور ساتھیوں کو نہیں بھلا سکتا۔ وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے۔ حق دوستی کوئی ان سے سیکھے۔ 1981ءکو ماہ ستمبر میں وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔