اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے بلوچستان ہاﺅس مےں بلوچستان نےشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مےنگل سے اہم ملاقات کی، دونوں رہنماﺅں کے درمےان ملاقات مےں ملکی بالخصوص بلوچستان کی صورت حال پر تبادلہ خےال کےا گےا۔ انہوں نے اپنے 6نکات نوازشریف کو بھی پیش کئے۔ ملاقات مےں مےاں نوازشرےف نے بلوچستان کے مسئلہ کے حل کےلئے ملکی سےاست مےں سرگرم کردار اد ا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اس بات کی ےقےن دہانی کرائی کہ مسلم لےگ (ن) بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زےادتےوں کے ازالہ مےں اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کےا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر آئےن اور قانون کی عملداری کے لئے جدوجہد کرےں گے۔ بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے آئین و قانون کی حکمرانی اور عملداری قائم کرنا ہوگی۔ سردار اختر مےنگل نے اس بات پر زور دےا کہ لاپتہ افراد کی بازےابی کے بارے مےں ان کے چھ نکات کو تسلےم کئے بغےر بلوچستان کی صورت حال بہتر نہےں ہو سکتی، ملاقات کے بعد محمد نواز شرےف نے صحافےوں سے بات چےت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زےادتےوں کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے نواب اکبربگٹی کے قتل کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اگر ان کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا کےا جاتا تو ناراض بلوچوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکتا تھا۔ آئین شکنوں اور جمہوریت پر شب خون مار کر ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے والوں اور نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دئےے بغیر حالات درست نہیں ہو سکتے اگر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے ذمہ داروں کو سزا دی گئی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اختر مینگل سے مل کر ملک میں آئین و قانون کی عملداری کیلئے جدوجہد کی جائے گی، ہمےں باہر والوں پر تنقید سے پہلے اپنے گھرکو ٹھیک کرنے کا سوچنا چاہئے، دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے سردار اختر مینگل اور ان کے والد مےر عطاءاﷲ مینگل سے قریبی مراسم ہیں اس لئے انہوں نے اختر مینگل سے ملاقات کے لئے اسلام آباد آکر ان سے ملاقات کی۔ اختر مینگل وہ سےاست دان ہیں جن کے والد نے قےام پاکستان اور متفقہ آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن آج یہ ہم سے کےوں دور ہو گئے ہےں ؟ قوم کو سوچنا ہوگا کہ ہم سے وہ کون سے مظالم سرزد ہوئے ہےں جن کی وجہ سے یہ پاکستان بنانے والے ہم سے دور چلے گئے، اب ہم ان کے زخموں پر کس طرح مرہم لگا سکتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کا حادثہ بھی اسی طرح پیش آیا، شیخ مجیب الرحمن بھی قائداعظمؒ کے مخلص پےروکار تھے لیکن غلط فیصلے انہےں ہم سے دور لے گئے اور پھر انہوں نے چھ نکات دیئے جنہیں تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیش بن گیا ہم نے مشرقی بازو کٹنے پر بھی ہوش کے ناخن نہ لئے۔ آج کسی شخص نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ نواب اکبر بگٹی نے خودکشی کی ہے میں صرف یہ تبصرہ کرونگا کہ اگر انہوں نے خودکشی کی ہے تو انہیں مارنے سے قبل مشرف نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں تمہیں وہاں سے ہٹ کرونگا کہ تمہیں خبربھی نہ ہوگی۔ ہم لاپتہ افراد کی بازےابی کی جدوجہد میں بلوچ عوام اور اختر مینگل کے ساتھ ہیں۔ آج کسی کا بیٹا غائب ہے کسی کا باپ نہیں مل رہا اگر یہ کچھ ہی کرنا تھا تو پھر آئین بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ آئین تو عمل کرنے کیلئے بنایا جاتا ہے۔ اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں کے جذبات سمجھتے ہیں اس کا ایک خاص پس منظر ہے جس کی وجہ سے ان کے جذبات اس نہج پر پہنچے ہیں۔ مےں نے ملاقات کے دوران اختر مینگل سے کہا کہ وہ خود ان مشکلات اور تکالیف سے گزر چکے ہےں اس اذیت اور کرب سے بخوبی آگاہ ہوں جب مجھے وزیراعظم ہاﺅس سے سےدھا جیل بھیج دےا گےا جب والد وفات پا گئے تو ان کی تجہےز وتکفےن مےں شریک نہیں ہونے دیا گیا، میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے بھی 15 ماہ جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارے اور جعلی طیارہ اغواءکیس میں پھانسی کی سزا دینے کی کوشش کی گئی سات سال جلا وطن رکھا گیا‘ انہوں نے کہا کہ میں سوچتا تھا کہ کیا میں دشمن ہوں یا غدار ہوں کہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے کیا مجھے غدار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات میں میں نے ایک لمحہ کے لئے باغی بننے کا سوچا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے ان جذبات سے اختر مینگل کو آگاہ کرنے کے بعد درخواست کی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی، آئین کی حکمرانی اور رول آف لاءکیلئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ قبل ازیں سردار اختر مینگل نے صحافےوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا لاہور سے اسلام آباد آکر ان سے ملاقات کرنے پر شکرےہ ادا کےا وہ 8 سال بعد اسلام آباد آئے اور کافی عرصے بعد میاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہے ‘ وہ قوتیں جنہوں نے 65 سال ملک پر حکمرانی کی انہوں نے اس ملک کے عوام اور منتخب نمائندوں کو اپنا نوکر سمجھ رکھا ہے کاش انہوں نے ایک دن کے لئے بھی عوام اور سیاستدانوں کو اپنا حاکم سمجھا ہوتا ۔ ان قوتوں نے اپنا تمام وقت خود کو آئین اور قانون سے ماورا سمجھا اور عوامی رائے، آئین کو نظر انداز کیا اور جمہوری حکومتوں پر شب خون مارا۔ میں پاکستانی عوام کو بھی بتا رہا ہوں کہ بلوچستان کے عوام کی مایوسی آخری حد کو پہنچ چکی ہے اور انہیں واپس لانا اب ناممکن ہوگیا ہے۔ میں نے میاں صاحب سے کہا ہے کہ قوت کے اس مست بیل کو قابو کرنا آپ کا کام ہے۔ پورا پاکستان آپ کا اور بلوچستان فوج کا، تصور ترک کرنا ہوگا۔ اگر بلوچستان فوج کے حوالے رہا تو پھر بلوچوں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں، پھر خدا حافظ۔ سپریم کورٹ کی مہربانی کہ اس نے ہمےں لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بلایا ۔ میں نے سپریم کورٹ میں اپنا تحریری موقف پیش کر دےا ہے ، میرے چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے اگر ان چھ نکات پر عمل نہیں ہوگا تو پھر بلوچستان کے عوام آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں ہونگے بلکہ آپ سے بات بھی نہیں کرینگے ان چھ نکات میں ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جو آئین اور قانون سے متصادم ہو، مقتدر قوتوں نے آج تک بلوچستان کے عوام کو اپنا شہری تصور نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو پھر بلوچستان میں پانچ ملٹری آپریشن نہ کئے گئے ہوتے۔ ہمارے نوجوانوں کے جسموں پر پاکستان زندہ باد نہ لکھا گیا ہوتا ڈرل سے جسموں میں سوراخ نہ کئے گئے ہوتے ان کی نعشیں جنگلی جانوروں کے سامنے نہ پھینکی گئی ہوتیں اب یہ سول سوسائٹی اور عوام پر منحصر ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا فوج نے آج تک اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کی مشرقی پاکستان کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ساری دنیا جھوٹی ہے۔ حمود الرحمن کمشن کی رپورٹ جھوٹی ہے ‘ صرف وہ سچے ہیں انہوں نے آج تک کبھی جمہوریت پر شب خون مارنے کی غلطی تسلیم نہیں کی بلکہ اسے قومی مفاد قرار دیا۔ الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حالت جنگ میں الیکشن نہیں ہوسکتے، بلوچستان بارہ سال سے حالت جنگ میں ہے۔ اختر مینگل نے کہا کہ خون خرابے سے بہتر ہے ہم گلے مل کر الگ ہو جائیں۔ بلوچستان کے جو آج حالات ہیں وہاں سے واپسی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ہمارے 6 نکات میں پاکستان کیخلاف کوئی بات نہیں۔ اگر ہمارے 6 نکات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو بلوچ عوام آپ سے بات چیت کیلئے تیار نہیں ہونگے۔ میڈیا کی طرح ارباب اختیار کو بھی حالات کا ادراک ہوتا تو بلوچستان کے حالات آج اس طرح کے نہ ہوتے۔ ہمارے 6 نکات کو تسلیم کرلیا جاتا تو یہاں نوجوانوں کی لاشیں نہ گرتیں۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم مشرقی پاکستان کا حادثہ دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہوگی، بلوچستان کے معاملات کا سنجیدہ نوٹس لینا ہوگا۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ کیساتھ ہیں۔ اکبر بگٹی کا قتل ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اگر اختر مینگل آج اس طرح کی باتیں کررہےہیں تو اس کی کوئی وجہ اور تاریخ ہے۔ بلوچ قیادت بہت مشکلات سے گزر رہی ہے۔اکبر بگٹی کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے، آئین کو توڑنے اور جمہوریت پر شبخون مارنے والوں کو سزا دئیے بغیر حالات درست نہیں ہونگے۔ اختر مینگل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ قوتوں نے خود کو آئین سے ماورا سمجھا۔ سپریم کورٹ کی مہربانی ہے کہ اس نے لاپتہ افراد کا مسئلہ سنا۔ نوازشریف نے کہا کہ اختر مینگل کی باتوں سے اندازہ ہوچکا ہوگا کہ بلوچ ہم سے ناراض ہیں۔ ہم نے آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملکر جدوجہد کریں۔ اب سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہوگا۔ ہم نے بھی جعلی کیس اور کال کوٹھڑیاں دیکھی ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گھر کو دیکھنا ہوگا۔ میری خواہش ہے کہ تمام صوبے قائم رہیں اور ہم جدا نہ ہوں۔ دلی دعا ہے کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے قائم و دائم رہیں۔ قانون کی حکمرانی قائم کی جائے اور ملزموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ہم نے 1999ءکے بعد کے حالات پر سنجیدہ غور کیا۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہمیں جھوٹی تسلیاں دی گئیں، دنیا کے سامنے کیسے جھٹلاﺅ گے۔ ہم بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ 65ءاور 71ءکی جنگوں سے لوگ بلوچستان میں آکر رہتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں لاکھوں بنگالیوں کا خون بہایا گیا۔ حالت جنگ میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا ہے۔ اگر وقتی تسلی دی گئی تو اسکا کوئی فائدہ نہیں، بلوچستان 12سال سے حالت جنگ میں ہے۔ ایجنسیوں نے کبھی اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا۔ دنیا جانتی ہے جنرل جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے۔ بلوچستان کے حالات جیسے ہیں واپسی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اختر مینگل نے کہاکہ ایجنسیوں نے مشرقی پاکستان میں مظالم سمیت کبھی اپنے جرائم کا اقرار نہیں کیا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی اور ملزموں کو کٹہرے میں لائے بغیر ملک کا قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔
اختر مینگل/ نوازشریف