منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی، اب بھی ہے

منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی، اب بھی ہے

میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بہترین آمریت کے مقابلہ میں بدترین جمہوریت کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری دور کو اور اب نواز شریف کے دورِ حکومت کو میں فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سیاہ دور سے بہرحال بہتر سمجھتا ہوں۔ لیکن نواز شریف کی کابینہ میں ایسے وزیر بھی شامل ہیں جن کا آمرانہ مزاج اقتدار میں اپنے اوج پر ہوتا ہے۔ سرکاری محکموں کے افسر عملی سیاست میں تو حصہ نہیں لے سکتے لیکن انہیں اپنا ووٹ استعمال کرنے کی پوری آزادی حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہونا بھی ناگزیر ہے کیونکہ جمہوریت نام ہی اختلاف رائے کی آزادی کا ہے۔ پھر آزادی¿ رائے کو برداشت نہ کرنے والا ڈکٹیٹر ہوتا ہے چاہے اُس نے فوج کے سربراہ کی وردی پہن رکھی ہو یا وہ عوام سے ووٹ لیکر ایوان اقتدار میں پہنچا ہو۔ پاکستان میں ویسے بھی فرعونوں کی روحیں اقتدار کے ایوانوں کے قریب بھٹکتی رہتی ہیں۔ جمہوری مزاج رکھنے والے اور جمہوری اقدار پر ایمان رکھنے والے سیاستدان فرعونوں کی ان روحوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے لیکن کچھ منتخب ارکان اسمبلی اور وزیروں میں کوئی نہ کوئی فرعونی روح داخل ہو جاتی ہے۔ پھر سیاست کے یہ فرعون بالکل فوجی آمروں کی طرح عوام کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔ شاید ایسی ہی صورتحال کو سامنے رکھ کر مرتضیٰ برلاس نے یہ شعر کہا تھا
نام اس کا بادشاہت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے
ایسا ہی ایک واقعہ میرے علم میں آیا ہے کہ ایک سرکاری ادارے کے افسر کا تبادلہ محض اس وجہ سے کروا دیا گیا ہے کہ اس کے بارے میں گمان یہ تھا کہ اُس نے موجودہ حکومت کے ایک وفاقی وزیر کے خلاف ووٹ دیا تھا اور مخالف امیدوار کی حمایت میں ووٹ بھی مانگے تھے۔ یہ الزام اگرچہ جھوٹا تھا لیکن اگر کسی سرکاری افسر نے علی الاعلان بھی کسی موجودہ وزیر کے خلاف الیکشن میں ووٹ دیا ہو تو کیا اس ”جرم“ میں اس کا تبادلہ کروا دیا جائے گا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں سرکاری افسروں اور اہلکاروں نے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے حق میں بھی اپنے ووٹ استعمال کئے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کیلئے ووٹ بھی مانگے ہیں۔ ایسے تمام سرکاری افسر جو مسلم لیگ (ن) کی کھلم کھلا سپورٹ کرتے رہے ہیں وہ مسلم لیگی ارکان اسمبلی کی آنکھوں کا تارہ بن گئے اور اگر کسی سرکاری افسر کی جھوٹی شکایت بھی کسی مسلم لیگی ایم این اے یا ایم پی اے تک پہنچی ہے کہ وہ الیکشن میں تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کا حامی تھا تو اُس کی شامت آ گئی ہے۔ کسی سرکاری افسر کا یہ حق تو نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے عہدے کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے لیکن کسی سرکاری افسر کا اپنی آزادانہ مرضی سے ووٹ دینا یا کسی امیدوار کیلئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا قطعاً جرم نہیں۔ اگر کسی رکن قومی اسمبلی یا ممبر صوبائی اسمبلی کا تعلق موجودہ حکمران جماعت سے ہے اور اُسے یہ اعتراض ہے کہ کچھ سرکاری افسروں نے ان کے مخالفین کو ووٹ کیوں دئیے ہیں تو یہ سوچ جمہوریت کے سراسر منافی ہے۔ البتہ وہ سرکاری افسر جو اپنی حدود سے تجاوز کر کے سیاست میں سرگرم حصہ لیتے ہیں اُن کے خلاف مناسب کارروائی ضرور ہونی چاہئے لیکن یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ جس افسر کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں عملاً حصہ لینے کا الزام ہو اُس کو صفائی کا مکمل موقع دیا جانا چاہئے۔ تاہم برسر اقتدار سیاستدانوں کا یہ طرز عمل درست نہیں کہ وہ صرف مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے کی شکایت ملنے پر خود سرکاری افسروں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ ہم تمہیں اپنے علاقے میں نہیں رہنے دیں گے۔ وقت نے بڑے بڑے فرعونوں کی رعونت پہ خاک ڈال دی ہے اس لئے کسی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایم این اے یا وزیر بننے کے بعد خدا کے لب و لہجہ میں بات کرنا شروع کر دے۔ انسان کو ہمیشہ انسانیت کے جامے میں ہی رہنا چاہئے۔ آج اگر مکافاتِ عمل کے قانون کی زد پر جنرل پرویز مشرف آ سکتا ہے تو موجودہ حکمران بھی کل احتساب کے شکنجے میں پھنس سکتے ہیں۔ بے گناہ افسروں کے ساتھ فرعونیت کا سا انداز اپنانے والے ایم این اے اور وزیر احمد فراز کے اس شعر کو نہ بھولیں ....
مَیں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بُجھیں گے ہَوا کسی کی بھی نہیں
مجھے ایک سرکاری افسر نے خود بتایا ہے کہ جب ایک ایم این اے نے صرف اس غلط اطلاع پر کہ مَیں نے اُس ایم این اے کے خلاف ووٹ دیا اور ووٹ دلوائے ہیں یہ دھمکی دی کہ مَیں تمہیں یہاں نہیں رہنے دوں گا تو مَیں نے ملازمت ہی سے استعفیٰ دیدیا کیونکہ مَیں نوکری کیلئے اپنی عزت اور ضمیر کا سودا نہیں کر سکتا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اختلافی ووٹ دینے والے کے روزگار کو قتل کرنا جمہوریت کی کونسی قسم ہے۔ ایسے جمہوریت دشمن رویوں کی کوکھ سے ہی آمریت جنم لیتی ہے۔ ہم نے نو سال تک جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین اور قانون کے قتل کا تماشا دیکھا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا دور کبھی دوبارہ پاکستان میں نہ آئے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے دور میں سیاستدانوں کے رویے بھی انسانی اور اخلاقی حدود کے اندر رہنے چاہئیں۔ جمہوریت اور شرافت کی اقدار کے تحفظ کے بغیر ہم ملک میں غیر جمہوری طاقتوں کی یلغار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
آخر میں معروف شاعر ڈاکٹر اختر شمار کی مصر میں حقیقی فرعون سے ”ملاقات“ کا احوال بھی سُن لیں۔ حقیقی فرعون پاکستان کے نمبر دو فرعونوں سے سخت ناراض تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فرعون اپنی فرعونیت کے باوجود اپنے شاہی خزانے عوام پر استعمال کرتا ہے اور اب بھی مُردہ فرعونوں کو دیکھنے کیلئے جب دنیا بھر کے سیاح مصر آتے ہیں تو مصری قوم کو اس سے اربوں ڈالر سالانہ حاصل ہو جاتے ہیں لیکن پاکستانی فرعون قومی دولت لوٹ کر اپنے غیر ملکی بنک اکاﺅنٹس بھرتے چلے جاتے ہیں۔ حقیقی فرعون نے کہا کہ فرعون جیسا بھی ہو اسے کچھ نہ کچھ اپنے عوام کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مگر پاکستان کے ٹیڈی فرعونوں نے اپنی عوام دشمن پالیسیوں سے بلاوجہ فرعونیت کو بدنام کر رہے ہیں۔

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن