اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ اور علاقائی امن کے لئے پاکستان کے عزم کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کو جموں و کشمیر کے مسئلہ پر متوجہ رہنا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا بھرپور احساس کرنا چاہئے، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، ڈرون حملوں، مسئلہ کشمیر، ملکی سیاسی، اقتصادی و سماجی صورتحال، علاقائی اور عالمی امور، اقوام متحدہ میں پاکستان کے کردار سمیت وسیع تر امور پر پاکستان کا موقف پرزور انداز میں پیش کیا۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو اصلاح کی ضرورت ہے تاہم اس کی اصلاح اس طور ہونی چاہئے جس سے چند ممالک کے عزائم کی بجائے تمام ممالک کے مفادات کی عکاسی ہو۔
عالمی سطح پر طاقت کا محور اقوام متحدہ اور امریکہ جبکہ علاقائی حوالے سے بات کی جائے تو جنوبی ایشیاءمیں بھارت ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے تینوں کو نرم لہجے میں سخت اور اصولی پیغام دینے کی کوشش کی۔ میاںنواز شریف 11مئی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت کیلئے ضرورت سے زیادہ نرم گوشے کا اظہار کر رہے تھے انہوں نے منموہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی اور میڈیا میں اس عزم کا اظہار بھی کردیا کہ وہ بغیر دعوت کے بھی بھارت جانے کیلئے تیار ہیں۔ بھارت کے ساتھ دوستی، تجارت اور تعلقات میں فروغ کیلئے انہوں اپنی خواہش کو کبھی اخفا میںنہیںرکھا۔
پاکستانی سفارتی حلقوں کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی بھارتی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کیلئے ایک بیقراری کی کیفیت پائی جاتی تھی جبکہ بھارتی سفارتی حلقے اس مجوزہ ملاقات کیلئے پاکستان کی طرف سے ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے بالآخر وزیراعظم منموہن سنگھ نے ملاقات کی حامی بھرلی جو آج اس کے باوجود ہورہی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں دو روز قبل 12پولیس اور فوج کے افسروں کو ایک حملے میں ہلاک کردیا گیا۔ چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ وزیراعظم نواز شریف اس اہم ترین پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کا ذکر گول کرجائیں گے۔ قوم کو یاد ہے دسمبر 1988ءکو بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان آئے تو اسلام آباد کی شاہراہوں سے کشمیر روڈ کے بورڈ تک اتروا دئیے گئے تھے کہ مبادا ان کی موجودگی مہمانِ گرامی کی طبیعت پر گراں گزرے۔اس تناظر میں اندیشہ یہی تھا کہ مسئلہ کشمیر پر نواز شریف مصلحت سے کام لیں گے مگر تمام تر خدشات کے برعکس وزیراعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر پر کھل کر بات کی جو عین کشمیریوں اور پاکستانیوںکی اُمنگوں کے مطابق تھی۔ میاں نوازشریف نے کشمیر کے حوالے سے تمام معاملات کھول کردنیا کے سامنے رکھتے ہوئے باور کرایا کہ سلامتی کونسل میں مسئلہ جموں و کشمیر 1948ءمیں پیش کیا گیا جو 7عشروں سے حل طلب ہے۔ وزیراعظم نے خطے میں اسلحہ کی دوڑ کی بات بھی کی جس پر بے تحاشا وسائل ضائع ہورہے ہیں ان وسائل کو عوام کی معاشی بہبود کیلئے بروئے کار لایاجاسکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے عوام خوشحال ہوں گے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور علاقائی مسائل کے حوالے سے جو بے لاگ بات کی ،امید کی جانی چاہئے کہ وہ آج کی منموہن کے ساتھ ملاقات میں بھی ان کو زیر بحث لائیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش رکھتے ہیں جو مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پروان نہیں چڑھ سکتی۔ دشمنی اور نفرت کی فضا کے باوجود پاکستان اوربھارت کے مابین تجارت، تعلقات اور دوستی موجود رہی ہے، تجارت وہ بھی خسارے کی ہوتی رہی۔ میاں نواز شریف خود ایک کاروباری شخصیت ہیں اس کے باوجود بھارت کے ساتھ تجارت جاری ہے۔مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں تو تجارت سرے سے ہونی ہی نہیں چاہئے چہ جائیکہ یہ گھاٹے کی بھی ہو۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے اٹھایا گیا جس کی بجا تحسین ہورہی ہے۔ صرف یہ مسئلہ اٹھانے سے ہی فرض ادا نہیں ہوجاتا۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک کمٹمنٹ عزم اور اراد ے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر اسے قوت بازو سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی۔ آزادی کشمیر کیلئے قائداعظم جیسے عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف تو مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ ہونے کے ناطے قائد کے جانشین ہونے کے دعویدار بھی ہیں۔آزادی کشمیر کی تڑپ اور اس پر غاصبانہ قبضہ کرنیوالے جارح سے دوستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے وزیراعظم نے اپنا نقطہ نظر بھی بڑی دلیری سے پیش کیا۔ان حملوں کے مضمرات سے اقوام متحدہ کو آگاہ کیا اور ایک بار پھر امریکہ پرڈرون حملے روکنے پر زور دیا۔پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میںبھی اٹھایا ہے ۔نواز لیگ حکومت کی یہ کوششیں بجا ہیں تاہم ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹ کی مشترکہ اور متفقہ قراردادیں بھی منظور کی گئی تھیں جو ہنوز عمل طلب ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے دنیا میں قیام امن کیلئے پاک فوج کی عالمی امن فوج میں شمولیت اور اس کی قربانیوں کا تذکرہ کیا۔اسلام مخالف مغربی ملکوں کو تہذیبوں کے تصادم سے گریز کا مشورہ دیا۔ اسلام کے حوالے سے دہشت گردی کے تصور کو باطل قرار دیتے ہوئے دنیا کو باور کرایا کہ دہشت گردی اسلام کے انسانیت دوست اور مقدس اقدار کی نفی کرتی ہے دہشت گردی کے مرتکب مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں۔بلاشبہ دنیا کی نظر یں پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی اور اس کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر ہیں اس حوالے سے میاں نواز شریف اپنے خطاب میں کسی واضح لائحہ عمل کا اظہار نہ کرسکے۔شاید اس حوالے سے ان کے پاس اب تک کوئی پالیسی اور حکمتِ عملی نہیں۔ان کی طالبان کے ساتھ مذاکرات یا اپریشن کی پالیسی بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ شدت پسندوں کے ساتھ کبھی غیر مشروط مذاکرات کا اعلان کیا جانا ہے تو کبھی کہاجاتا ہے کہ طالبان ہتھیار ڈالیں، انہیں حکومتی شرائط ماننا ہوں گی۔ وزیراعظم شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے گومگو کی کیفیت سے نکلیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ہماری کمزوری نہ سمجھاجائے۔ دوسری طرف ان کی طرف سے حملوں میں شدت آگئی۔ کیا ایسا کرکے وہ حکومت کو بلیک میل اور خودکو طاقت و ر ثابت کرناچاہتے ہیں؟
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں چرچ حملہ پر کہا ”ہم اقلیتی برادری کے ارکان پر حملے پر دہشت گردی پر بہت زیادہ افسردہ ہیں....“ پاکستان بلاتفریق مذہب و مسلک اور نسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے خطاب میں کئی سوال تشنہ تکمیل رہے تاہم مجموعی طورپر پر خطاب موقع محل کے مطابق مناسب اور اطمینان بخش ہے۔اللہ کرے زور زباں اور زیادہ!