نیویارک (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کشمیر میں حق خودارادیت کی ضمانت دی گئی ہے، ہمیں تنازعہ کشمیر پرامن ذرائع سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنا ہوگا۔ میں بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت کسی معاملے پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ بھارت عالمی فورمز پر ہمارے خلاف پراپیگنڈا کریگا تو یکطرفہ طور پر دوستی کا راگ نہیں الاپ سکتے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو ا پنا دفاعی بجٹ اپنی گنجائش کے مطابق بنانا چاہئے اور اگر دونوں ملکوں کے درمیان امن اور بامعنی مذاکرات ہوتے تو یہ وسائل خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ پر خرچ ہونے کی بجائے غریب عوام کی ترقی اور خوشحالی پر خرچ ہورہے ہوتے۔ ماضی میں ہم سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے غلطیاں ہوئی ہیں جن کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ اگر ساری دنیا ہمیں غلط سمجھ رہی ہے تو پھر ہم کہیں تو غلط ہوں گے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی بہتری پر زور دیا اور کہا کہ تعلقات بہتر ہونے کے بعد دونوں ممالک اپنے وسائل عوامی ترقی اور خوشحالی پر خرچ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے ماضی میں ایکدوسرے کیخلاف بھیانک جنگیں لڑی ہیں جس سے ان کے دفاعی بجٹ انکی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ 14 سال قبل انکا امریکہ آکر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے کا عمل وقت نے صحیح ثابت کیا لیکن پھر عوام نے دیکھا کہ 14 سال قبل انہیں کس طرح غائب کر دیا گیا۔ انہوں نے یہ باتیں نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اور ایک انٹرویو میں کہیں۔ انہوں نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ بھارت اور پاکستان میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک میں خلیج وسیع تر ہوتی چلی جا رہی ہے، بھارت اپنے دفاع پر پاکستان سے زیادہ سرمایہ خرچ کر رہا ہے، اس معاملے پر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہونا چاہئے، ہمیں ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ کر تمام مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ اس سرمایہ کو سماجی شعبے کی جانب منتقل کرنا ہوگا۔ پاکستانی کمیونٹی سے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کو ایکدوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہماری کوشش ہے کہ بھارت کیساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کریں، افغانستان میں بھی امن چاہتے ہیں، ہمیں ایکدوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے، بھارت کو ہمارے معاملہ میں اور ہمیں انکے معاملہ میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے، یہی معاملہ افغانستان کے بارے میں ہونا چاہئے۔ بھارتی وزیراعظم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ امید ہے آج ملاقات میں مذاکرات اعلان لاہور سے شروع ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت میں اسلحہ کی دوڑ ختم ہونی چاہئے۔ جان کیری سے کہہ دیا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں، انہیں زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتے۔ اگلے ماہ صدر اوباما سے بھی اس معاملے پر بات کرونگا۔ دہشت گردی کا جن قابو کرنا آسان کام نہیں اس کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان نہ تو کسی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے دیگا نہ ہی ہم بھارت، افغانستان یا کسی اور کے معاملات میں مداخلت کریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان میں ترقی صرف جمہوری ادوار میں ہوئی، فرینڈلی اپوزیشن کے طعنوں کے باوجود جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا۔ بےنظیر بھٹو سے مل کر ملک کو آمریت سے نجات دلائی، دنیا پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، توانائی کا بحران ایک ڈکٹیٹر کا پیدا کردہ ہے، پچھلی اور اس سے پچھلی حکومت نے توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ گذشتہ 14 سال میں بہت کچھ سیکھا، کسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ پاکستان مفاد پرستی کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا، ملک میں چار مرتبہ ”ون مین“ شو رہا، جمہوری حکومت کو دو اڑھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا، راتوں رات چڑھائیاں ہوتی رہیں، وزرائے اعظم کو گرفتار کیا گیا، ڈکٹیٹروں نے حکومتوں کو گرایا، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تمام جماعتوں نے مذاکرات کا فیصلہ کیا، پاکستان میں دہشت گردی نائن الیون کے بعد شروع ہوئی، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، توانائی منصوبوں کیلئے رقم نہیں، گذشتہ حکومت نے اتنے قرض حاصل کئے جتنے پچاس سال میں حاصل نہیں کئے گئے، سابقہ قرض اتاریں یا نئے منصوبے لگائیں۔ ہم نے گذشتہ دور میں اپوزیشن کی اور ہم اپنے کردار سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہمیں بطور پاکستانی فخر ہونا چاہئے کہ لوگوں نے بیلٹ بکس کے ذریعہ فیصلہ کیا ہے اور بیلٹ بکس کے ذریعہ ایک حکومت آئی اور دوسری گئی ہے، بیلٹ کے ذریعے ایک صدر گیا اور دوسرا آیا، میں نے دونوں کو خوش آمدید کہا۔ آصف زرداری کو وزیراعظم ہا¶س میں خوش آمدید کہا۔ تقریروں کے ذریعے خدمات کو سراہا گیا۔ احترام کے ذریعے آصف علی زرداری کو رخصت کیا گیا، یہ پاکستان میں پہلی دفعہ ہوا اور میری آنکھوں نے یہ منظر پہلی دفعہ دیکھا، اس پر پوری قوم کو فخر ہونا چاہئے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں، لوگ جانتے ہیں یہاں کیسے تبدیلیاں آتی رہی ہیں، جمہوری حکومتوں میں جتنی ترقی ملک میں ہوئی اسکی کسی اور دور میں مثال نہیں ملتی۔ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں سڑکیں بنیں، ترقی کی رفتا ر تیز ہوئی، نئے ائرپورٹس بنے، موٹرویز بنیں، گرین چینل اور ریڈ چینل ائرپورٹس پر مقرر کئے، ییلو کیب آئیں، پاکستان میں ترقی کا جال بچھایا اور ایک دن وہ بھی آیا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنا، یہ سب کچھ سیاسی ادوار میں ہوا ہے، انتخابی مہم میں میں یہ بات کہتا تھا کہ پاکستان کے مسائل کو حل کرنا کوئی آسان کام نہیں اس کے لئے بہت جرا¿ت اور دل چاہئے، اگلے پانچ سال آرام کئے بغیر ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا، دن رات ایک کرنا پڑے گا، بجلی اور توانائی کا سنگین بحران ڈکٹیٹر کی پیداوار ہے۔ توانائی بحران ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے، پچھلی اور اس سے پچھلی حکومت سے سوال پوچھنے چاہئیں کہ انہوں نے اس مسئلہ پر توجہ کیوں نہیں دی۔ زرداری کی حکومت نے مشرف حکومت سے ورثہ میں یہ مسئلہ حاصل کیا۔ 10، 15، 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ملک میں ہوتی رہی یا ہوتی ہے۔ ملک میں بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے، غربت بڑھتی جا رہی ہے، ترقی کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا، اس طرح کیسے ملک چلے گا، کسی کو کیا پتہ ہم نے 500 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنے کے لئے پیسے کا کہاں سے بندوبست کیا۔ ہم قرض اتاریں گے یا ملک میں بجلی کے نئے پلانٹس لگائیں گے، ہم قرض اتاریں گے بھاشا ڈیم بھائیں گے قرض اتاریں گے یا بچوں کو تعلیم دلوائیں گے، ہماری کمٹنٹ ہے کہ اپنے تعلیمی بجٹ کو دو سے چار فیصد تک لے کر جائیں گے۔ ہائیڈل منصوبوں پر آٹھ سے 10 سال لگتے ہیں بھاشا ڈیم کے لئے دس سال کا وقت چاہئے داسو ڈیم سے 4500 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی، گنجی ڈیم منصوبہ سے 7000 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی کئی سال چاہئیں ہمیں آج بجلی چاہئے اور اگر بجلی ہو تو ملک میں انویسٹمنٹ آنکھ جھپکتے میں آئے گی۔ اکنامک کوریڈور منصوبہ سنٹرل ایشیا تک جائے گا، یہ منصوبہ جنوئی ایشیا جائے اور واہگہ بارڈر تک جائے گا تین ارب لوگوں کو اس منصوبہ سے فائدہ ہو گا۔ پاکستان دنیا میں ترقی کا بہت بڑا ماڈل بنے گا، ہم ترکی بھی گئے مجھے تمغہ جمہوریت دیا گیا، ہم چین اور ترکی کے ساتھ مل کر پاکستان کی تعمیر کریں گے، اسلام آباد میں دبئی جیسا ایئرپورٹ بنانا چاہتے ہیں، تمام جماعتوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مذاکرات کے آپشن کو استعمال کرنا چاہئے، ہماری کوشش ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ مسائل کو حل کریں، افغانستان میں بھی امن چاہتے ہیں، اس سے خطہ میں امن ہو گا اور پاکستان میں بھی امن ہو گا۔ دہشت گردی کے واقعات پر تکلیف ہوئی ہے، چرچ کو نشانہ بنایا گیا، یہ حملہ اس وقت ہوا جب میں یو این آ رہا تھا۔ مساجد کے اندر اسی طرح کے دھماکے ہوتے ہیں، اہل تشیع کو مارا گیا، یہ معاملہ نائن الیون سے چل رہا ہے، اس جن کو قابو کرنا آسان کام نہیں تاہم اسے ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اسلحہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے، یہ دوڑ ختم ہو جائے تو ملک میں غربت، بےروزگاری اور تعلیم کے مسائل حل کئے جا سکتے۔ کراچی میں آپریشن شروع کیا، سیاسی مفادات کو آڑے نہیں آنے دیں گے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہیں یہ کا¶نٹر پروڈکٹیو ہیں ہم ڈرون حملے کسی طور پر بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کیلئے طاقت کا استعمال کرنا پڑی تو کریں گے۔ منموہن سے ملاقات میں دوریاں کم کرنے کی کوشش کا آغاز کریں گے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ نہ صرف مضبوط تعلقات چاہتا ہے بلکہ تمام تر تصفیہ طلب معاملات کا پرامن مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کی خواہش رکھتا ہے جن میں خاص طور پر تنازعہ کشمیر بھی شامل ہے ۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایسا شخص ہوں جو دونوں ملکوں کو نزدیک لایا، سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے 1999ءمیں پاکستان کا دورہ کیا، اب ہم وہاں سے ہی شروعات کرنا چاہتے ہیں، جہاں ہم نے معاملات ادھورے چھوڑے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات کے دوران اور منتخب ہونے کے بعد اپنا یہ م¶قف واضح طور پر دہراتے رہے ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے ہیں، ہم کشمیر سمیت اپنے تمام مسائل پرامن طور حل کرنا چاہتے ہیں، ہماری پارٹی کو انتخابات کے دوران واضح اکثریت حاصل ہوئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی انکی پالیسی کی تائید کی ہے۔ نوازشریف نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ جی ہاں! یقیناً! ہم مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے تعلقات کے درمیان فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ وزیر اعظم نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کا حوالہ دیا جن کے تحت کشمیر میں رائے شماری کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ہمیں تنازعہ کشمیر کو پر امن ذرائع سے بات چیت کے ذریعے میز پر بیٹھ کر حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس سلسلے میں پاکستان کے تاجر اپنے بھارت کے ساتھیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیاچن کے مسئلے کو بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کیلئے انتہائی اہم مسئلہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں انکا کہنا تھا دونوں ملکوں کی افواج سطح سمندر سے 22 ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر بیٹھے ہیں، میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ جدید دور میں اس بات کا کیا مطلب ہے کہ فوجیں 22 ہزار فٹ کی بلندی پر بیٹھی ہوں، میرا ماننا ہے کہ ہمیں یہ مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔ پھر سرکریک کا مسئلہ بھی ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملک اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے بھاری رقوم خرچ کر رہے ہیں، یہ رقم سماجی شعبے پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ ہم اپنے وسائل اور قیمتی سرمایہ خرچ کرتے آئے ہیں جو عمومی طور پر سماجی شعبے پر صرف ہونا چاہئے تھا لیکن ہم اس رقم سے لڑاکا طیارے، توپیں اور قیمتی آبدوز خرید رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ بھارت میں ہو رہا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوڑ شروع ہو گئی ہے چونکہ بھارت بڑا ملک ہے، اس کے پاس زیادہ وسائل ہیں، اگر وہ ہتھیار خریدتا ہے تو ہمیں اسکا مقابلہ کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ بھارت اپنے دفاع پر پاکستان سے زیادہ سرمایہ خرچ کر رہا ہے اس معاملے پر کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہونا چاہئے، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ تمام مسائل کو حل کرنا ہو گا اور اس سرمایہ کو سماجی شعبے کی طرف منتقل کرنا ہو گا۔ این ڈی ٹی وی سے انٹرویو میں نوازشریف نے کہا کہ منموہن سے ملاقات کا شدت سے انتظار تھا، آج انہیں دوبارہ ملاقات کی دعوت دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کواسلحہ کی دوڑختم کردینی چاہئیں، ہم اپناپیسہ ایف 16 پر کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں فوجی کیمپ حملوں جیسے واقعات انتہائی افسوسناک ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں تاہم ایسے وقعات سے مذاکرتی عمل پٹڑی سے نہیں اترنا چاہئے۔ وہ بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں مشترکہ میکنزم یا آزاد میکنزم کی تجویز پیش کریں گے تاکہ کنٹرول لائن کے واقعات کی تحقیقات کی جائیں ا قوام متحدہ سے بھی اس کی تحقیقات کرانے کےلئے تیار ہیں، کشیدگی کے خاتمے کےلئے ڈی جی ایم اوز اور دفتر خارجہ کی سطح پر رابطوں کو بروئے کار لانے کا بھی ایک آپشن ہے۔ دونوں ملکوں کو الزام تراشی نہیں کرنی چاہئے بلکہ تعلقات میں بہتری کےلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔
نیویارک (نوائے وقت رپورٹ + اے ایف پی + رائٹر) بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکو ”متروک“ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل شملہ معاہدے کے تحت چاہتا ہے، ہم اپنی علاقائی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، سرحد پار سے ریاستی حمایت یافتہ دہشت گردی پر بھارت کو تشویش ہے، پاکستانی سرزمین کا بھارت کے خلاف دہشت گردی کےلئے استعمال ہونا برداشت نہیں کیا جاسکتا، پاکستان دہشت گردی کی مشینری ختم کر دے، پاکستان دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے، ماحول بہتر بنانے کے لئے پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی اور فنڈنگ بند کرنا ہو گی۔ نوازشریف کے بھارت کے ساتھ نئی شروعات کے عزم کا خیرمقدم کرتے ہیں، عالمی برادری اس بات کو یقینی بنائے کہ ایٹمی ہتھیار اور حساس ٹیکنالوجی دہشت گردوں اور غیرریاستی عناصر کے ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے من موہن سنگھ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے 70 سالہ دور میں دنیا بہت بدل چکی ہے، اسے امن و سلامتی، انسانی حقوق اور گورننس سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے، امن کیلئے اقوام متحدہ کے قوانین اہمیت کے حامل ہیں، ہمیں دنیا میں غربت کے خاتمے کو ترجیح دینا ہو گی۔ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ترقی پذیر ملکوں کو مستقل رکنیت دی جائے۔ سلامتی کونسل کو موجودہ سیاسی تناظر میں ڈھالنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کو عالمی مسائل کے حل کے لئے اپنا کرداراداکرنا ہو گا، عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ ترقی پذیر ملکوں پر توجہ دے، اس وقت ایک ارب افراد غربت کا شکار ہیں۔ بھارت، شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرنے کی حمایت کرتا ہے، ہم ہر خطے میں امن واستحکام چاہتے ہیں، افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، اس مسئلے کے سیاسی حل کے لئے عالمی برادری افغانستان کو پرامن، مستحکم اور خوشحال بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے میں افغانستان کے عوام کی مدد کرے۔ افریقہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک دہشت گردی ہر جگہ امن و استحکام اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے، سرحد پار سے ریاستی حمایت یافتہ دہشت گردی پر بھارت کو تشویش ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کو پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ نوازشریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں نئی شروعات کی بات کی ہے میں ان کے عزم کا خیر مقدم کرتا ہوں، بھارت مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل شملہ معاہدے کے تحت چاہتا ہے لیکن بات چیت کے لئے پاکستان کو اپنی سرزمین اور زیر انتظام علاقے بھارت کیخلاف دہشت گردی کے مقاصد کے لئے استعمال ہونے سے روکنا ہو گا اور دہشت گردی کی مشینری کو بند کرنا ہو گا، اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، یہی حقیقت ہے ، ہم بھارت کے اتحاد اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، بھارت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے اور اس ضمن میں ہر قسم کی عالمی کارروائی کی حمایت کرے گا، دہشت گردوں کو پناہ گاہوں کی فراہمی، مالی امداد اور تربیت جیسے اقدامات برداشت نہیں کئے جا سکتے۔ عالمی امن اور سلامتی کو درپیش پیچیدہ چیلنجز کا تقاضا ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاﺅ اور سائبر سکیورٹی کے حوالے سے نئے اصول وضع کئے جائیں۔ پاکستان میں جمہوریت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ دہشت گردی دنیا کے لئے ایک خطرہ ہے، بھارت سرحدی دراندازی سے کی جانے والے دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارت کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تمام تر معاملات کا حل چاہتا ہے۔ بھارت کو سرحد پار دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، پاکستان کو ماخول بہتر بنانے کے لئے دہشت گردی کی پشت پناہی اور فنڈنگ بند کرنا ہو گی۔ اس وقت دنیا کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے 70 سالہ دور میں دنیا بہت بدل چکی ہے، امن کے لئے اقوام متحدہ کے قوانین بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا میں ایک بلین لوگ غربت کا شکار ہیں، غریب کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے مسائل سے آگاہ ہیں، اقوام متحدہ کو عالمی مسائل کے حل کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔ بھارت آزاد فلسطین کی مکمل حمایت کرتا ہے، فلسطین کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی حمایت کرتے ہیں۔ دریں اثناءنجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے منموہن نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے حالیہ واقعات کے باعث نوازشریف سے ملاقات کا مزہ کرکرا ہو کر رہ گیا، نوازشریف سے کافی امیدیں وابستہ تھیں، ملاقات ہوئی تو فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات 1999ءکی سطح سے شروع ہوں گے یا 2013ءسے۔ وزیراعظم نوازشریف نے نئی شروعات کا کہا، میں بھی اس بات کا اعادہ کرتا ہوں اور ان سے ملاقات کا خواہشمند ہوں۔
منموہن