جمہوریت‘ جمہوریت‘ جمہوریت .... ان دنوں ہر خاص و عام جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کے برخلاف بات کرنا گویا مقدس گائے کی پوجا کی ممانعت کے مصداق ہے‘ تاہم اگر ہم مغربی مفکرین اور مشرقی علماءکی سطح سے قدرے تنزلی اختیار کرتے ہوئے عام آدمی کے ذہن سے تفہیم کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ چیزوں کے اچھا بُرا ہونے کا فیصلہ ان کے نتائج سے کرتا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے جب عام پاکستانی ایک پلڑے میں جمہوریت اور دوسرے میں آمریت رکھتا ہے تو اسے دونوں برابر دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں نے جب سے آنکھ کھولی ہے‘ دو ہی طرز ہائے حکومت دیکھے ہیں۔ یعنی آمریت یا جمہوریت۔ ماضی کے تجربات سے ایک پاکستان کیلئے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہرگز مشکل اور گراں نہیں ہے کہ ان ادوار میں آمروں نے آمریت سے خوب جھولیاں بھریں اور عوامی نمائندوں نے بھی دو دو ہاتھ سے لوٹ مار کی اور اگر کچھ نہیں ملا تو غریب پاکستانیوں کو .... اگر کمزور سے کمزور تر ہوئے ہیں تو عوام.... بدحالی سے مفلوک الحال ہوئے ہیں تو یہی عوام.... اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان دونوں قوتوں نے اپنی بیل منڈیر پر چڑھانے کیلئے ہمیشہ غریب عوام ہی کا کندھا استعمال کیا ہے۔ عوامی نمائندے نعرہ لگاتے ہیں تو غریب عوام کے مسائل کی بات کرتے ہیں۔ آمر اگر عود کر آتا ہے تو قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر.... مگر اڑسٹھ برس گزرنے کے بعد بھی عوام اور ملک انحطاط پذیری کا شکار ہیں۔ آخر کب تک عوام کے ساتھ یہ بھیانک مذاق جاری رہے گا؟ مجھے آمریت کے بارے میں الفاظ استعمال کرکے وقت ضائع نہیں کرنا کیونکہ قطعی طورپر یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس کی بہر طور دنیا کے کسی خطے میں بھی پذیرائی نہیں ہوئی‘ تاہم جمہوریت مغرب کا عطا کردہ ایک مقبول ترین طرز حکومت ہے جو دنیا کے بیشتر ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں موجود و مروج ہے۔ اور بیسویں صدی کے وسط میں آزادہونے والی اکثر کالونیز میں اسی طرز حکومت کو رواج دیا گیا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی وہ طرز حکومت تھا جو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کر سکتا تھا۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں ہی ایک ہے۔ بہرحال ماضی‘ ماضی میں دفن ہو چکا‘ اب جبکہ فیصلے ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں اور اگر ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آج کے حالات کے تناظر میں کیا جمہوریت ہی ایک بہتر طرز حکومت ہے جو ہمارے مسائل و وسائل کے عین مطابق ہے؟ اس کا جواب اگر ہم جمہوریت کے مصائب و محاسن میں تلاش کریں گے تو شاید ہم بھول بھلیوں میں کھو جائیں کیونکہ فقط نظام کی حد تک اس کے محاسن پر انگشت زنی کی کسی کو جرا¿ت نہیں۔ اگر اس کی رو ح کے مطابق اس کا اطلاق کیا جائے تو اس نظام کے ثمرات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں ماضی میں ایسا ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ اپنے گریبان میں جھانکنا زند قوموں کا شعار ہے۔ ہم گروہوں میں بٹی ہوئی قوم ہیں اور اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے لہٰذا ہمیں جمہوریت کی قمیض کو اپنے جسم کے مطابق بنانا ہوگا نہ کہ بدن کو قمیض میں گھسیڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پچھلے دو تین انتخابات نے واضح نتائج ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں کہ اندرون سندھ میں علاقائی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ کراچی میں ایک لسانی جماعت کی من مانی ہے اور وہ کسی دوسرے کے نظریات سننے کیلئے تیار نہیں۔ بلوچستان میں نیشنلسٹ جماعتوں کی حکمرانی ہے یا پھر کچھ مذہبی جماعتیں اپنی سیٹیں پکی کئے بیٹھی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 2013ءکے انتخابات میں تبدیلی دیکھنے کو ملی مگر یہ کب تک برقرار رہتی ہے‘ کچھ معلوم نہیں۔ شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان میں آزاد امیدوار زیادہ میدان مارتے ہیں۔ رہ گیا پنجاب تو زیادہ نشستیں ہونے کی وجہ سے جو پارٹی یہاں زیادہ نشستیں لیتی ہے وہ مرکز میں بیساکھیوں کے سہارے یعنی اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کے پاس صرف ایک صوبہ ہے مگر تین صوبوں میں الگ الگ اپوزیشن حکومتیں قائم کئے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کو الزام دیتی ہے اور صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کو بُرا بھلا کہتی رہتی ہیں۔ ایسے میں غریب عوام کا پرسان حال کون ہوگا؟ لہٰذا الیکشن 2013ءہو یا آنے والے انتخابات! ہمارا مجموعی قومی ذہن اس قدر بٹوارے کا شکار ہو چکا ہے کہ نتائج اس سے مختلف نہ ہونگے۔ وہ دور اب شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملے کہ جب چاروں صوبوں‘ آزادکشمیر اور مرکز میں ایک ہی جماعت کی حکومت بنے اور وہ پھر دل و جان سے غریب عوام کی خدمت کرے اور اسے کوئی عذر مانع نہ ہو۔ بہرحال اس تفصیل میں جائے بغیر میں یہاں اہل علم کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ جمہوریت کی قمیض کو اپنے جسم کے مطابق تیار کرکے پہنیں اور اگر اسی سسٹم میں رہنا ہے تو اس میں اپنے ملک اور قوم کے مزاج کے مطابق ترامیم کریں۔ کامیاب جمہوریتوں میں دو پارٹی سسٹم رائج ہیں مگر ہمارے ہاں ہزار پارٹی سسٹم ہے۔ خدارا اٹی بٹی قوم کو کم از کم دو پارٹی سسٹم میں منظم کر دیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر جمہوریت ہمارے لئے کوئی مقدس گائے نہیں کہ جس کی پوجا ہمارا مقصد ہے۔ آئیں اپنے ملک کیلئے اپنا نظام بنائیں۔ اگر جمہوریت ہمیں مزید گروہوں میں تقسیم کرتی ہے تو ہم صدارتی نظام اختیار کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم یہ حقیقت مان کیوں نہیں لیتے کہ ہم نظریات کی بجائے شخصیت پرستی کا شکار ہیں لہٰذا ہم شخصیت ہی کو ہی صدر کیلئے ووٹ کیوں نہ دیں۔ ہمارے پاس اب آزمانے اور ضائع کرنے کیلئے وقت ہرگز نہیں ہے لہٰذا ہر دو برس بعد صدارتی انتخاب کیوں نہیں کرائے جا سکتے۔ اس مختصر دورانیے کا فائدہ یہ ہوگا کہ منتخب صدر کو وقت ضائع کئے بغیر عوامی فلاح و بہبود کے امور پر توجہ دینا پڑے گی کیونکہ دو برس بعد اسے پھر عوام کے روبرو پیش ہونا ہے۔ دوسری طرف ویٹنگ لسٹ میں موجود سیاستدانوں کو بھی جاں گسل انتظار کی صعوبت برداشت نہیں کرنا پڑے گی اور نہ ہی کسی لانگ مارچ کی نوبت آئے گی۔ آخر میں میری سیاستدانوں‘ اراکین پارلیمان اور اشرافیہ سے درخواست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہی وہ وقت ہے جب حقیقی معنوں میں نظام اور نیتیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔
جمہوریت یا صدارتی نظام؟
Sep 29, 2014