اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹرسے/ خبرنگار) اڈیالہ جیل میں توہین رسالت کے ملزم پر قاتلانہ حملہ کے واقعہ میں مزید انکشافات ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس اہلکار جیل وارڈر محمد یوسف جیل کے اندر خود اسلحہ نہیں لے کر گیا بلکہ جیل کے اندر پہلے سے پہنچائے گے اسلحہ کو اس کے حوالے کیا گیا۔ جیل کے سکیورٹی کیمروں سے حاصل فوٹیج کے مطابق محمد یوسف جیل کے اندر 7 بجکر 20منٹ پر داخل ہو چکا تھا جبکہ جیل کے اندر کھلنے والے گیٹ سے سرکل نمبر 4میں واقع اس سپیشل سیل کا فاصلہ پیدل صرف 3منٹ ہے جبکہ پولیس اہلکار محمد یوسف اس سیل میں 8بجکر 25 منٹ پر پہنچا۔ ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ یہ پولیس اہلکار جیل کے اس خصوصی حصے میں جہاں سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کئے گئے ہیں کیا کرتا رہا جبکہ اس کی جیل کے اندر ڈیوٹی بھی نہ تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے پولیس اہلکار نے توہین رسالت کے ملزمان کے سیل تک پہنچنے سے قبل ممتاز قادری سے ملاقات کی، اسی دوران اسے اسلحہ مہیا کیا گیا۔ انکوائری کمیٹی میں بھی اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ایک شخص ایک پسٹل، 35 گولیوں سے بھری دو میگزینز اور ایک چاقو کیسے بوٹوں میں چھپا کر لے جا سکتا ہے۔ دوسری طرف سکیورٹی گیٹ پر موجود اہلکار جو ان چھ اہلکاروںمیں شامل ہے جنہیں گزشتہ روز اس واقعہ پر گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اڈیالہ چوکی کی حوالات میں بند ہے، نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ اس نے پولیس اہلکار محمد یوسف کی خود تلاشی لی۔ اسکے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا، دوسری طرف جیل واقعہ کی انکوائری کمیٹی پر حقائق چھپانے کے الزمات اورکمیٹی کمپوزیشن پر بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔