تفتیش اور تشویش اور پولیس مانیٹرنگ سسٹم

اگر پولیس کا محکمہ ٹھیک ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر اب تو ہر محکمے میں پولیس والے انداز پیدا ہو گئے ہیں۔ آوے کا آوا بگڑ گیا ہے۔ پولیس کو ٹھیک کرنے کی بڑی کوششیں ہوئی ہیں۔ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا عزم سیاستدانوں کے منشور میں بھی ہوتا ہے اور بعد میں بھی یہ نعرہ بہت ولولہ انگیز ہے۔ اس میں جرائم کے لیے تفتیش کا عمل بہت اہم ہے اور تھانوں میں اہم جگہوں اور پولیس کے اہم لوگوں کی نگرانی بڑی ضروری ہے۔ اسے محکمے کی مانیٹرنگ بھی کہا جا سکتا ہے۔ تفتیش کے معاملے میں آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا اور مانیٹرنگ سسٹم کے لیے سی سی پی او کیپٹن امین وینس کے کمالات دیکھنے کا موقع ملا۔ بالعموم کہا جاتا ہے کہ سیاسی اور سرکاری مداخلت سے بھی کام بہت خراب ہوتا ہے۔ سیاستدان اپنی مرضی کے SHO تھانوں میں لگواتے ہیں۔ وہ ان کی مرضی سے ایک کام کرتے ہیں تو دس بارہ اپنی مرضی سے بھی کر لیتے ہیں۔ کیپٹن صاحب کے بقول اس میں بھی معاملہ دو طرفہ ہے۔ لوگ تھانوں کا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنا کوئی نقصان ہونے کے باوجود تھانے میں رپورٹ نہیں کرتے۔ آج کل رینجرز یہ کہتے ہیں کہ ہم ملزم پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کی عدالتوں سے ضمانتیں ہو جاتی ہیں۔ جج صاحب نے فیصلہ پولیس کی تفتیش اور مقدمے کی پیشی کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ ایف آئی آر جو تھانے میں پہلی رپورٹ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور ضمنی جو پولیس کا تفتیشی افسر لکھتا ہے بہت اہم ہیں۔ سب فیصلے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ 

تفتیش اور پولیس والوں کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ تفتیش کے لئے محکمہ پولیس کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نبیلہ غضنفر نے بریفنگ کے لیے بلوایا۔ آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا کی باتیں اس حوالے سے کلیدی تھیں۔ میں انہیں بہت دیر سے جانتا ہوں۔ انہوں نے محکمہ پولیس میں ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ وہ پنجاب پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ایسا کچھ کر جائیں کہ انہیں یاد رکھا جائے۔ تفتیش کے لئے اصلاحات کسی ایسے پروگرام کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ تفتیش کے لیے جائے واردات کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بالخصوص قتل کے فعل میں جائے وقوعہ کی بہت اہمیت ہے۔ ہمارے لوگ کسی بھی حادثے کی صورت میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اور اس ہجوم میں کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہتی۔ ہر چیز بکھر جاتی ہے۔ بعض اوقات کوئی ایک چیز بھی سارے کیس کی کامیابی کے لیے بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے جائے وقوعہ سے دور رہنے کی بہت تلقین کی جاتی ہے۔ اس طرح قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ بات کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔
میرا ابا پولیس انسپکٹر کے طور پر ریٹائر ہوا۔ تب سب انسپکٹر SHO ہوتے تھے۔ ہم کئی تھانوں میں ان کے ساتھ رہے۔ میں چونکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا۔ اس لیے ابا جی مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ضمنی لکھنے میں بھی میں ان کی معاونت کرتا تھا۔ ابا شعر و ادب کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی ضمنیاں ایک ماڈل کی طرح محفوظ کرنا چاہئیں تھی۔
آئی جی کے ساتھ جینیئن پولیس افسر کیپٹن امین اور مشہور پولیس افسر SSP عمر ورک بھی تھے۔ میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ جائے واردات پر فوراً ایس ایچ او اور ڈی پی او پہنچ جائیں۔ اگر ممکن ہو تو کوئی ایڈیشنل سیشن جج بھی آ جائیں تو قتل کا پورا واقعہ بڑی آسانی سے سامنے آ سکتا ہے۔ اس وقت لوگ بھی سچ بولنے سے نہیں گھبراتے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ قتل کس نے کیا ہے۔ کیوں قتل ہوا ہے۔ اصل کہانی کیا ہے۔ بعد میں کہانی کا عنوان تلاش کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔ آئی جی صاحب نے اچھی باتیں کیں۔ ”میڈیا جو کچھ پولیس کے لیے لکھتا ہے۔ پڑھ کر شرم آتی ہے۔ انصاف کی پہلی سیڑھی تھانہ ہے۔ اگر یہیں پہ لوگ مایوس ہو گئے تو پھر معاشرے کا نظام چلانا ممکن ہی نہیں ہے۔ حکمران بھی اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ تھانہ کلچر تبدیل کیا جائے۔ شہباز شریف نے پولیس والوں کو بہت مراعات بھی دی ہیں تو ہمیں ان کے اعتماد پر پورا اترنا چاہیے۔ سیاستدانوں کی طرح سکھیرا صاحب نے پولیس کی وردی میں ملبوس حاضرین سے وعدہ لیا۔ اللہ کرے یہ وعدہ پورا ہو۔ منیر نیازی کا شعر یاد آتا ہے۔
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
تھانہ کلچر تبدیل کرنا سی سی پی او کیپٹن امین وینس کا بھی خواب ہے۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھنے والا اور درد محسوس کرنے والا پولیس افسر کچھ نہ کچھ کر گزرتا ہے۔ اس حوالے سے اپنی تحریر کا عنوان برادرم حسن نثار نے شاعرانہ رکھا ہے۔ ”تخلیقی اور تکنیکی پولیسنگ کا آغاز“ ہر آغاز کا ایک راز ہوتا ہے۔ کیپٹن صاحب اس راز سے کچھ کچھ واقف ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ تھانہ کلچر کیسے تبدیل کیا جائے۔ یہ معرکہ آرائی کرنے سے پہلے پولیس افسران اپنے آپ کو بدلیں تو پھر پولیس ملازمین بھی بدل جائیں اور لوگ بھی بدلیں گے۔ ورنہ لوگ پولیس کے تعاون کے لیے خود بھی پولیس والوں کی طرح ہو جاتے ہیں اور کام مزید خراب ہوتا ہے۔ پہلے تو تھانوں اور دفتروں میں چٹ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لوگ بلاروک ٹوک پولیس افسران سے مل سکیں۔ اس کے لیے ہر تھانے میں ایک ذمہ دار پولیس والے کو ایڈمن افسر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی ٹریننگ کی گئی ہے۔ مجھے بھی ان سے گفتگو کرنے کے لیے ایک دفعہ جانا پڑا۔ وہاں کیپٹن صاحب کے علاوہ ایس ایس پی عمر ورک بھی موجود تھے۔ وہ نچلی سطح سے اوپر پہنچے ہیں۔ اور ہر سٹیج پر معاملات کی سب نزاکتوں کو جانتے ہیں۔ میں ایک بار تھانہ وحدت کالونی گیا۔ SHO کو ملنے سے پہلے میں نے کہا کہ میں تو ایڈمن افسر سے ملوں گا۔ مجھے بتایا گیا کہ تھانے میں آنے والے آدمی کو وہ خود ملتے ہیں۔ اب تھانے میں وہ ماحول نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔
کیپٹن امین کے دفتر میں چٹ کے ذریعے ملاقات کا معاملہ حل ہو گیا۔ جو انہیں ملنا چاہے مل سکتا ہے۔ ایک ہجوم ان کے دفتر میں تھا۔ ہر آدمی کو مطمئن کر کے کیپٹن صاحب نے بھیجا۔ یہاں خاص آدمی بھی تھے اور عام لوگ بھی تھے۔ خاص و عام کا فرق ہمارے ملک میں ختم ہو گیا تو آدھے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ کیپٹن صاحب نے نئی ٹیکنالوجی کو تھانے کے اندر جدید مسائل کے لیے استعمال کیا ہے۔
کیپٹن صاحب مجھے لوئر مال تھانے میں ساتھ لے گئے۔ ایک خاص کمرہ تھا جہاں کمپیوٹر رکھے ہوئے تھے۔ وہاں مسلسل کام ہو رہا تھا۔ اس سارے واقعے میں برادرم نایاب حیدر ہمارے ساتھ موجود رہے۔ وہ ڈی جی پی آر سے تعلق رکھتے ہیں۔ میڈیا کے لیے وہ کیپٹن صاحب کی معاونت کرتے ہیں۔ وہ ڈی پی آر محکمہ پولیس نبیلہ غضنفر کو اپنی لیڈر کہتے ہیں۔ نایاب بہت ملنسار اور اپنے کام سے محبت رکھنے والے آدمی ہیں۔ اب وہ پولیس کے محکمے کے کوئی افسر لگتے ہیں۔ سارے پولیس افسران ان کے جیسے ہو جائیں تو کام بن جائے گا۔
تکنیکی سہولتوں کے استعمال سے امید لگ پڑی ہے کہ تھانہ کلچر تبدیل ہو گا۔ ہر تھانے کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹر میں موجود ہے۔ خاص طور پر ہر تھانے میں چار اہم جگہوں کی ہر نقل و حرکت نظر میں ہوتی ہے۔ SHO کے کمرے کے علاوہ وہ کمرہ بھی اہم ہے جہاں اپنی بات رپورٹ کرانے کے لئے لوگ آتے ہیں۔ جو محرر کا کمرہ کہلاتا ہے حوالات کا سارا منظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوتا ہے۔ ایڈمن افسر کا کمرہ اس طرح تھانے میں کرپشن بدتمیزی اور کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہاں پر کسی کو پتہ ہو گا کہ مجھے دیکھا جا رہا ہے۔ کوئی بھی مجرم جو تھانے میں لایا جائے۔ اس کی تصویر شناختی کارڈ نمبر بھی فوراً سامنے آ جائے گا۔ جو پولیس والے موٹر سائیکل پر گھوم رہے ہیں۔ ان کی مصروفیات بھی ریکارڈ پر ہوں گی۔ یہ ایک نظام ہے کہ 50 ہزار لوگوں تک کوئی ضروری ایس ایم ایس فوراً پہنچ جائے گا۔ یہ سب کچھ ایک بٹن دبانے سے ہو جائے گا۔
کمپلینٹ منیجمنٹ اینڈ وجلنٹ سسٹم۔ اس طرح نگرانی کرنے کا ایسا پروگرام بنایا گیا ہے کہ کسی کے لئے جھوٹ بولنا ممکن نہیں رہا۔ ون فائیو سے زیادہ جدید معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی 8330 پر ایس ایم ایس کر سکتا ہے اور اپنی بات حکام بالا تک پہنچا سکتا ہے۔ تکنیکی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ملا کر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک انقلاب ہے۔ اسے پورے پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں پھیلا کر خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن