باکمال پاکستانیوں کی بین الاقوامی سطح پر نمایاں خدمات سرانجام دینے والی پی آئی اے کی ”لاجواب“ سروس جس کا شمار کبھی دنیا کی ہردلعزیز اور قابلِ اعتماد فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ آج تاریخ کے بدترین خسارے سے ہی دوچار نہیں مقروض بھی ہو چکی ہے۔ اپنی اس قومی ائر لائن کی بہتری کے سلسلہ میں گزشتہ برس 4/3کالم اس امید پر لکھے تھے کہ شائد وزیر دفاع یا پھر پی آئی اے کی انتظامیہ اس ڈوبتی ائرلائن کےلئے فوری اقدامات کر سکے۔ مگر افسوس دو برس گزرنے کے باوجود حکومت نے کوئی ایسا ایکشن نہیں لیا جس سے قومی فضائی کمپنی کے گرتے معیار کو دوبارہ قابل اعتبار بنایا جا سکتا۔اس میں بھی قطعی شک و شبہ نہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی پی آئی اے پر ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتی ہے مگر اس ترجیح میں ان کی بڑی مجبوری Direct Destinationہے جس سے بچے، خواتین اور عمر رسیدہ افراد کو سفری مشکلات کا اضافی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کرایہ خواہ 600پونڈسے بھی زیادہ کیوں نہ ہو مگر مجبور افراد پی آئی اے کو ہی ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ سمندر پار پاکستانیوں کو جنہیں ”غیر سرکاری سفیروں“ ایسا خطاب بھی دے رکھا ہے انکی سفری مشکلات اور شکایات کو فوری طور پر مدد کرتی۔ دوران پرواز یا پھر ائرپورٹ پر دی گئی ناکافی سہولتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی جائز شکایات کا بھی فوری نوٹس لیا جاتا۔ مگر ایسا ہو نہیں پایا اور آئندہ کچھ ہونے کی توقع بھی نہیں؟ پی آئی اے کے ہر سال بڑھتے مالی خسارے، میرٹ سے ہٹ کر اہم عہدوں پر سیاسی اور منظور نظر افراد کی تقرریاں۔ دوران پرواز طیاروں کے ٹائلٹس سے ”پریشر فلیش“ میں خرابی، فضائی میزبانوں کی مسافروں سے منفی طرز گفتگو ، اوورسیز پروازوں میں سلسلہ وار تاخیر اور غیر معیاری سروس کو بہتر بنانے کےلئے متعدد بار تجاویز دیں مگر جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں اصلاح کی توقع کیسی؟پی آئی اے کے اعلیٰ حکام، چیئرمین، منیجنگ ڈائریکٹر اور وزیروں، مشیروں کو سفر چونکہ فسٹ کلاس میں کرنا ہوتا ہے اس لئے سرکاری خرچے پر کئے سفر میں انہیں جب کسی تکلیف کا سامنا نہیں تو اکانومی کلاس میں سفر کرنےوالوں کے بارے میں انہیں فکر کیوں لاحق ہو گی؟ یہ رونا تو رونا ہے ان محنت کشوں کو جنہیں اپنے ہی وطن جانے کےلئے بھاری کرایہ بغیر سہولتوں کے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ قومی معیشت کے فروغ میں ان محنت کشوں کا اہم کردار ہے۔ ”ولایت نامہ“ پڑھنے والوں کا حافظہ اگر بہت کمزور نہیں تو میں نے پی آئی اے کی 15برس پرانی تاریخ کے حوالہ سے انہیں آگاہ کیا تھا کہ قومی فضائی کمپنی کو ہونےوالے کل نقصان کا تخمینہ اس وقت 45 ملین ڈالرز تھا جس کے بعد اس بھاری خسارے کو پورا کرنے کےلئے انتظامیہ کی جانب سے 25 ارب روپے کی فوری ضرورت کا اعلان کردیا گیا۔ اسی طرح 2002ءمیں پی آئی اے کو دوبارہ 52 ملین ڈالرز کے بھاری خسارے سے دوچار ہونا پڑا جبکہ طیاروں کی مجموعی سروس اور سیفٹی بدستور سوالیہ نشان رہی۔
2012ءمیں جمبو طیاروں کی غیر معیاری سیفٹی کی بنا پر یورپی یونین نے بوئنگ 747 سیریز پر یورپ کےلئے پابندی لگا دی چنانچہ طیاروں کو UPGRADING SAFETY STANDRED کے بعد یورپ آپریشن کی اجازت دے دی گئی یہ واقعہ پوری پاکستانی قوم اور بالخصوص سمندر پار مقیم پاکستانیوں کےلئے ندامت کا باعث بنا۔
پی آئی اے کے بھاری خسارے کا غم قوم ابھی بھلا نہ پائی تھی کہ اگلے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ ڈویژن کے اجلاس میں کیے اس انکشاف نے جس میں بتایا گیا کہ قومی فضائی کمپنی 226 ارب روپے کی مقروض ہو چکی ہے، رہی سہی امیدوں پر پانی پھیر دیا جبکہ اس قرض کی مد میں پی آئی اے کو سالانہ اب 26 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس بھاری نقصان کی بنیادی وجہ پی آئی اے مینجمنٹ کے وہ بڑے صاحب ہیں جو پہلے تو ایک بنک سے قرضہ لیتے ہیں اور پھر کمال ہوشیاری سے کسی دوسرے بنک سے وہ قرضہ ری شیڈول کروا لیتے ہیں جس سے کمپنی کو ماہانہ 13 ارب روپے بطور سود ادا کرنا پڑ رہا ہے؟ قائمہ کمیٹی کی کابینہ ڈویژن ہو سکتا ہے بعض فوری اقدامات کرنے کی سفارش کرے۔ مگر سچ بات تو یہ ہے کہ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ کسی بڑے صاحب کو کوئی ادارہ بھی ہاتھ نہیں ڈالتا کہ بیوروکریسی کے اپنے قواعد وضوابط ہیں۔ پی آئی اے کی تاریخ متعدد سکینڈلوں سے بھری پڑی ہے جب ایکشن لینے والے خود دھاندلیوں کا حصہ بن جائیں تو انصاف کے تقاضے کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ ابھی چند ہی روز قبل لندن کے ایک اور روٹ پر پی آئی اے کو مبینہ طور پر 4ارب روپے نقصان پہنچانے کے ایک ایسے میگا سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جس میں ریونیو اور شعبہ مارکیٹنگ کے اعلیٰ ذمہ داران افسران شامل ہیں، ان کا کام رات کو خفیہ PASSWORDS کے ذریعے ہم خیال ایجنسیوں کےلئے کم قیمت ٹکٹوں کی بکنگ اوپن کردیا کرتے تھے۔ جس سے پی آئی اے کی ایک پرواز کو لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، اب اندازہ آپ خود لگائیں کہ جس ایئر لائن کی کریڈیبلٹی کا یہ حال ہو جسے ہر صاحب اپنے طور طریقوں سے آپریٹ کررہا ہو ایسی ایئر لائن سے منافع کی امید کیونکر رکھی جا سکتی ہے۔ کاش چیئرمین پی آئی اے صورتحال واضح کر سکیں اے کاش!