ریکھے ریان اور 4th رائونڈ

ابھی تک خطہ میں قدرے امن ہے۔ ہم پاکستانی عموماً امن پسند اور امراء پرتعیش لگژری لائف‘ عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ماضی میں بعض اوقات پاک بھارت جنگوں نے خطہ کے امن کو ڈسٹرب کیا۔ جب پاکستانیوں کو 1965 اور 71ء کی جنگیں لڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان جنگوں کو روکنا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ جنگ مشیت ایزدی کی طرف سے قوموں پر وارننگ، سزا، کڑی آزمائش، تباہی یا رحمت کے روپ میں نازل ہوا کرتی ہے۔

1965ء کی جنگ پاکستانیوں کے لئے رحمت بن کر آئی۔ اس لئے کہ پاک قوم متحد تھی۔ 1971ء کی جنگ تباہی لائی اس لئے کہ جب دشمن فوج حملہ آور ہوئی اس وقت مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔
1987ء میں بھی بھارتی مسلح افواج کیل کاٹنے سے لیس ہو کر پاکستان کو فتح کرنے چڑھ دوڑی تھیں لیکن بغیر خون بہائے انہیں واپسی کا حکم مل گیا۔ یہ کہانی بھارتی کرنل ریکھے ریان نے اپنی کتاب ’’وہ جنگ جو نہ ہوسکی‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہے۔
کرنل راوی ریکھے بھارتی دفاعی تجزیہ نگار اور ملٹری strategist مانا جاتا ہے۔ اسے مہذب دنیا کے دانشور سن زو۔ لڈل ہارٹ، مارٹل اور جنرل Fuller (فلر) کی طرح جنگی ماہر مانتے ہیں۔ اس کی کتاب The Fourlk Round معنی ’’چوتھی پاک بھارت جنگ‘‘ جنگ جو عنقریب ہوتی نظر آرہی ہے بڑی مقبول ہوئی تھی۔ یہ کتاب 1982ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کرنل ریکھے ریان لکھتا ہے پاک بھارت جنگ کے سیاہ بادل 1987ء میں چھاگئے 1986-87 بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشق براس ٹیک کا آغاز کیا۔ ریکھے ریان لکھتا ہے ’’یہ نیٹو فوجی مشقوں سے بھی بڑی مشق تھی نیٹو فوجی مشق Au Tumn Forge کا ایریا آف آپریشن ناروے سے ترکی تک تھا جس میں ایک لاکھ بیس ہزار فوجی حصہ لے رہے تھے۔ براس ٹیک مشق میں تین لاکھ بھارتی فوجی تھے۔ بھارتی فوج لائیو امونیشن لے کر چلی تھی۔ جنرل سندرجی بھارتی فوجوں کا سیناپتی تھا۔ یہ وہی بھارتی جنرل تھا جو پاکستان پر حملہ آوری کے لئے بے چین رہتا تھا۔ پلان تھا کہ فوجی مشق کی آڑ میں پاکستان پر بھرپور حملہ کردیا جائے۔
ریکھے ریان لکھتا ہے ’’لیکن بھارتی فوجیں پاکستان پر حملہ نہ کر سکیں اس لئے کہ بھارت کے سیاسی لیڈر عین وقت پر حوصلہ ہارگئے‘‘۔ ریکھے ریان لکھتا ہے ’’بھارتی فوجوں کو جو اہداف دئیے گئے وہ یوں تھے۔ (1) پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا (2) آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا (3) سندھ پر قبضہ (4) 8 فروری 1987ء ساڑھے 4 بجے صبح سکردو پھر گلگت پر حملہ ہونا تھا۔ دو ہفتے پاک فوج کے ساتھ لڑائی رہتی اور ناردرن ایریا پر بھارتی فوجوں کا قبضہ ہوجاتا۔ (5) 6 بھارتی ڈویژنیں اور تین آرمرڈ ڈویژنیں اور Mechanisedبریگیڈز سندھ بارڈر پر ایک جگہ اکٹھی ہوگئیں۔ براس ٹیک میں 13 انڈین ڈویژنیں فاضلکا اور جنوب میں حرکت کر رہیں تھیں۔ ان سب کے پاس لائیو ایمونیشن تھا‘‘
ریکھے ریان لکھتا ہے ’’RAW کا موقف تھا کہ پاکستان سے بھرپور جنگ کی جائے مشرقی پاکستان میں جہاں پاکستانی ایک دوسرے سے 5000 کلومیٹر سمندری راستے سے دور تھے وہاں ایک لاکھ ریگولر اور پیراملٹری ٹروپس نے حالات کو سنبھال لیاتھا۔ بھارتی فوج حملہ نہ کرتی تو سقوط ڈھاکہ ناممکن تھا۔ اس لئے بھارتی پلان یہ تھا کہ پہلے پاکستانی بھارت کے دوست باشندے بغاوت کریں۔ بھارت سے مدد کی اپیل کریں پھر بھارتی افواج حملہ آور ہوں۔ اسی طرح مغربی پاکستان کو دولخت کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ریکھے ریان لکھتا ہے ’’1987ء میں بھارتی فوجوں کا نصب العین مغربی پاکستان کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو فتح کرکے بھارت کا حصہ بنانا تھا۔ یعنی اکھنڈ بھارت لیکن جنرل ضیاء الحق کی ایک دھمکی نے راجیوگاندھی کو حواس باختہ کردیا۔ اس نے بھارتی فوجوں کو پسپائی کا حکم دے دیا۔‘‘
قارئین کرام! اب سنئے کرنل ریکھے ریان آئندہ پاک بھارت جنگ پر کیا تبصرہ کرتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں ’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں 1987ء میں بڑی جنگ سے بچا لیا۔ ضرب المثل ہے کہ ’’جب جنگ شروع ہوتی ہے تو دوزخ اپنا منہ کھول دیتا ہے۔ لیکن ہم کتنی بار اس دوزخ کی آگ سے بچتے رہیں گے۔ ذرا سوچو اگر بھارت کے اکثر لیڈر جنگی جنون میں مبتلا ہوگئے جیسے ارون سنگھ اور جنرل سندر جی ہوئے تھے۔ ذرا سوچو! اگر کوئی تشدد پہ آمادہ ذہنی مریض بھارتی لیڈر جس کا دل پاکستان سے نفرت سے بھرا ہو وہ بھارت کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور اپنے ساتھی ہندو عقابوں اور مسلح افواج کے اعلیٰ افسروں کو پاکستان پر حملہ آوری کے لئے آمادہ کر لیتا ہے۔ اس دن کا تصور کرو جب دونوں ممالک کی مسلح افواج ہولناک جنگ کی بھٹی میں جھونک دی جاتی ہیں اور جنگ کے شعلے گلگت سے دلی تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جبکہ راجیوگاندھی جیسے لیڈر بھارت میں صاحب اقتدار نہ ہوں بلکہ BJP اور ہندو شدت پسندوں کی دلی میں حکمرانی ہو جن کا پہلا مطالبہ ہے کہ وہ تمام قوانین منسوخ کردئیے جائیں جو مسلمان کو ان کے عقائد اور رسم و رواج کے مطابق ہوں۔ ایسے سنگین حالات میں جنگ ہوگی جس سے برصغیر میں موت کے سائے ہونگے ہر جگہ آگ اور خون کے الائو بھڑکیں گے۔ بڑے اور خوبصورت شہر لاہور، دلی، بمبئی اور اسلام آباد ورلڈ وار IIکے برلن اور لندن کی طرح مٹی کے ڈھیر بن جائیں گے۔ شہروں میں ائر شیلٹر نہ ہونے کی وجہ سے موتیں بہت زیادہ ہونگی‘‘۔کرنل ریکھے ریان کی 34 سال پیشتر لکھی کتاب میں لکھے اندیشے اور خطرات سے آگاہی اب حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ آج بھارت کا جنگی جنونی وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی کابینہ کے بعض جارح وزراء پاکستان کو دولخت کرنے اور ایٹمی جنگ کی بار بار دھمکیاں دے چکے ہیں۔جب سے مودی سرکار بھارت کی حکمران بنی پاکستان توڑنے کی سازشوں نے جنم لیا۔ امریکی تھنک ٹینک نے بھی بتا دیا ’’گوادر منصوبہ ناکام بنانے کے لئے بھارت نے را کے ذریعے خصوصی سیل بنایا ہے اور بھارتی ادارے خطرناک کارروائیاں کررہے ہیں۔‘‘
وزیراعظم مودی نے لال قلعہ دلی میں یوم آزادی کے دن بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی باتیں کیں۔ الطاف حسین سے پاکستان مخالف بیان بازی کرائی جس نے امریکہ، اسرائیل اور بھارت سے مدد مانگی اور پاکستان کو دولخت کرنے کی باتیں کیں۔ بھارت نے اڑی دہشت گردی کا ڈرامہ رچا کر آزاد کشمیر میں اپنے گوریلے داخل کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ 23 ،24 ستمبر کی خبریں ملاحظہ ہوں۔ ’’بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر توپیں اسلحہ پہنچانا شروع کر دیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید 10 ہزار فوجی بھیج دئیے۔
کرنل ریکھے ریان کی پیش بندی ’’ذرا سوچو اگر کوئی تشدد پر آمادہ ذہنی مریض بھارتی لیڈر جس کا دل پاکستان سے نفرت میں بھرا ہو۔ وہ بھارت کا وزیراعظم بن جائے اور ہندو سیاسی عقابوں اور مسلح افواج کے لئے اعلیٰ افسروں کو پاکستان پر حملہ آور کے لئے آمادہ کر لے اور جب دونوں ملکوں کی مسلح افواج جنگ کی دہکتی بھٹی میں جھونک دی جاتی ہیں۔ اس دن دونوں اطراف شہریوں کا کیا حال ہو گا۔ جن کے لئے حکومتوں نے ائر ریڈ شیلٹر بھی تعمیر نہیں کئے۔،، اگر بھارت کے ساتھ 4th رائونڈ شروع ہو گیا۔ جس کا بعض یورپی دفاعی تجزیہ نگار عندیہ دے رہے ہیں تو اس کے لئے پوری قوم کو جنگ کے لئے تیارکرنا پڑے گا۔ افسوس کہ ملک میں موٹر وے، کارپٹ روڈز، میٹرو بسیں اورنج ٹرینیں، فلائی اوور اور انڈر پاسز تو بنائے جا رہے ہیں لیکن کسی شہر میں نہ ائر ریڈ شیلٹر ہیں نہ خندقیں ہیں جہاں حملوں کے وقت عوام سر چھپا سکیں۔ 98 فیصد شہری چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال نہیں جانتے نہ وہ جانتے ہیں کہ حملوں کے محلوں، دیہات اور شہروں کی حفاظت کیسے کی جائے۔ لیڈر بیان بازی تو کرتے ہیں کہ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ سب دکھاوا ہے۔ ایسے اوقات میں وزیراعظم ان کے وزراء کو اگلے مورچوں میں جا کر فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ ائرکنڈیشنڈ ڈرائنگ روموں یا محلاتی دفتروں میں بیٹھ کر جنگیں لڑی نہیں جا سکتیں۔
جنگی ایام میں پاکستان کو دوستوں کی ضرورت پڑے گی۔ قیوم نظامی صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ ’’امریکہ اور بھارت کے خفیہ عزائم کے پیش نظر پاکستان کو چین، روس اور ایران سے سٹرٹیجک روابط بڑھانے چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن