کشمیر کی بات دنیا کو کیسے سمجھائیں گے

دنیا کے اہل فکر و دانش اور سیاست و حکومت پر مسئلہ کشمیر کا پس منظر اور اہمیت واضح کرنے کے لئے بیس اکیس آدمیوں کو بھیجا جارہا ہے جو اچھا اقدام تو یقینا ہے یہ کام کیسے کریں گے بلکہ کیا یہ کربھی سکیں گے؟ ان میں بھائی مشاہد حسین شامل ہیںجو پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے رفیقِ کار اور سیاسیات کے اچھے استاذ اور صاحب قلم صحافی بھی تھے پھر میدان سیاست میں بھی وہ نیک نامی کما چکے ہیں ! اگر دوسرے لوگ بھی ایسے ہی ہیں تو کچھ بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے لیکن اگر یہ لوگ بھی ہم پر اور ہمارے ملک پر قابض شاہوں (یعنی وڈیرہ شاہی، نوکر شاہی، جرنیل شاہی، کرپشن شاہی یا مُلاں شاہی) کے ان شہزادوں کی طرح ہوئے جو اس طرح کے سیر سپاٹوں کے لئے چنے جاتے ہیں اور غریب ملک کی کمائی کو پانی کی طرح بہا کر واپس آجاتے ہیں تو پھر ’’کوجھے رونے نالو چُپ چنگی اے‘‘۔

ایک تو دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو پرامن بقائے باہمی کا تو قائل ہی نہیں بلکہ وہ تو طبقاتی تقسیم پر ایمان رکھتا ہے جس کے چار قبضوں میں آزادی صرف اونچی ذات کے برہمن کی ہے اور چوتھا یا آخری طبقہ اچھوت ہیں جو اعلیٰ ذات کے ہندو کے خادم اور غلام ہوتے ہیں مگر وہ اعلیٰ ذات کے ہندو کو چھو بھی نہیں سکتے۔ دوسرے مذاہب کے لوگ اول تو آزادی سے رہ نہیں سکتے اگر رہیں گے تو رہن سہن لازمی طو رپر ہندوانہ ہوگا!
ہندو کا دعویٰ جمہوریت اور سیکولرازم بھی جھوٹ اور فریب ہے۔ جہاں طبقاتی تقسیم ہو اور غیر ہندو مذاہب جیسے مسیحیت اور اسلام وغیرہ کو مذہبی اور معاشرتی آزادی بھی نہیں دی جاسکتی بلکہ مسلمان تو زندہ بھی نہیں رہ سکتے تو ایسے میں جمہوریت اور سیکولرازم والی آزاد زندگی کہاں؟ ہندو کا فریب یہ ہے کہ آزاد زندگی تو صرف اونچی ذات کے ہندو کے لئے ہے۔ ہندو کا سیاسی پروگرام یہ تھا کہ انڈیا صرف ہندو مذہب کی بنیاد پر متحد رہ سکتا ہے اور اب بھی ہندو جنوبی ایشیا کو ایک متحدہ اکائی بنانا چاہتا ہے صرف ہندو مت کی بنیاد پر اس لئے غیر ہندو مذاہب، جیسے مسیحیت اور اسلام وغیرہ کو تو یہاں سے جانا ہی ہوگا، مسلمان کا تو وجود ہی ناپاک ہے جس سے جنوبی ایشیا کو پاک کرنا ہوگا۔ آج مودی کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں یہی کرنا چاہتا ہے‘ جو نامعقول اور ناممکن ہے! مگر ہندو کے کوڑ مغز میں یہ بات آتی ہی نہیں رہی!
دنیا پر یہ بھی واضح کرنا ہے کہ ہندو کی یہ رٹ بھی بے بنیاد ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کشمیر پر توہندو کا غاصبانہ قبضہ ہے جسے 1947ء سے آج تک کشمیریوں نے نہیں مانا بلکہ مسلسل آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، اقوام متحدہ نے بھی نہیں مانا، یہ کیسا اٹوٹ انگ ہے جسے بھارت کی سات لاکھ سے زائد ہندو فوج مار رہی ہے۔ قتل کررہی ہے، مگر کشمیری سرکٹا رہے ہیں اگر غاصبانہ قبضہ اور ظلم سے کسی کمزور قوم کو اٹوٹ انگ بنایا جاسکتا ہے تو پھر ہر طاقتور کمزور کو غلام بنا کر اپنا اٹوٹ انگ بناتا جائے گا! کشمیر بھی بھارت اور پاکستان کی طرح برطانیہ کی نو آبادی تھا مگر انگریز کے جاتے ہی ہندو نے اس پر حملہ کرکے اسے زبردستی غلام بنالیا، کشمیری اس غلامی کو مٹا کر آزاد ہونے کے لئے بھارتی فوج سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم نقطہ بلکہ عبرتوں سے لبریز اور سبق آموز حقیقت ہے جسے ہم تو بے نیازی میں بھلا بیٹھے مگر ہندو نہیں بھولا بلکہ اس پر پوری شدت سے عمل پیرا ہے‘ وہ حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کے مسلسل ظلم و درندگی کے بعد جب دلتوں، دراوڑوں اور دیگر اقوام کو زیر کرکے اچھوت بننے پر مجبور کردیا تو آریائی عیار خود ہندو بن کر ہندوستان کا اصل باشندہ اور مالک بن بیٹھا پھر بدھ مت اور جین مت کو بھی جب حرف غلط کی طرح مٹا دیا تو آریائی عیار برہمن کو یقین ہوگیا کہ اب اونچا اور اعلیٰ بھی برہمن ہے اور اس سرزمین کا مذہب بھی صرف طبقاتی لعنت سے عبارت ہندو مت ہی واحد مذہب رہے گا جس میں تمام خدائی صفات و اختیارات کا مالک بھی صرف اونچی ذات کا حامل برہمن ہی ہوگا! مگر اسی اثناء میں برہمن مہاراج کو اسلام کا سامنا کرنا پڑگیا۔ برہمن کا خیال یہ تھا اور آج بھی وہی ہے کہ اسلام کو بھی بدھ مت اور جین مت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے، یہ خیال شدت پسند انسانیت سوز ہندو تنظیموں ( آر ایس ایس اور ہند مہاسبھا وغیرہ) سے ہندوتوا کے نام سے عیاں کردیا ہے اور خود اس کی چوٹی پر سوار ہوگیا جبکہ گاندھی، موتی لال اور جواہر لال وغیرہ جیسے مکار اور سازشیوں نے انگریز کے جانے تک مسلمانوں سے خفیہ رکھا اور کہا کہ بعد میں مسلمانوں سے نمٹ لیں گے! بڑے بڑے کانگرسی منافقین کی اس مکارانہ سازش کو صرف محمد علی جناح کی عقابی نظر نے بھانپ لیا تھا کہ کانگرس جس آزادی کی دعویدار ہے وہ صرف ہندو کے لئے ہوگی لیکن اس میں مسلمانوں کا حصہ نہیں ہوگا؟ ہندو جس آزادی کے لئے کوشاں ہیں اس میں انگریز کے جانے کے بعد مسلمان تو صرف آقا بدلیں گے، حکمرانی تو وہ ہندو کو دیکر جائیں گے کیونکہ انگریز کی آمد پر اپنے پہلے آقا مغلوں سے غداری کرتے ہوئے منحوس گورے کا ساتھ دیکر ہندو اس کے ہم نوا ہی نہیں ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوگئے تھے اس لئے انگریز نے ہندو نوازی اور مسلمانوں کی حق تلفی میں تمام حدود پھلانگ لی تھیں اس لئے انگریز جاتے ہوئے حکومت ہندو کے ہاتھ میں دیکر جانا چاہتے تھے اس کی دو وجوہ تھیں ایک تو انہوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لئے گورے مسلمان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ دوسرے وہ آزادی کے بعد ہندوستان کو ہندو کے ہاتھ میں دیکر مستقبل کے روسی کمیونزم کا مقابلہ کرسکیں گے، مگر مشرق وسطیٰ کے ٹکڑے کرکے اسرائیل کو ان سے محفوظ کرنا چاہتے تھے! اس صورت حال سے بھی ہندو نے خوب فائدہ اٹھایا اور عربوں سے کہا کہ جس طرح انگریز تمہارے ٹکڑے کررہا ہے اسی طرح مسٹر جناح اور اس کی مسلم لیگ کی مدد سے ہندوستان کے بھی دو ٹکڑے کرنا چاہتا ہے اگر مسلمان پاکستان کے بجائے کانگرس کا ساتھ دیں تو نہ صرف ہندوستان متحد رہے گا بلکہ انگریز بھی جلد ہی بھاگ جائیں گے اگر ثبوت درکار ہو تو مصری اخبار نویسوں سے قائداعظم کی بات چیت پڑھ لیجئے اس لئے ناواقف عرب آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو انگریزکی پیداوار سمجھتے ہیں، عربوں کی اس غلط فہمی اور نفرت کو زائل کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہیں!
اس حقیقت سے دنیا والوں کی طرح ہمارے لیڈر بھی آگاہ نہیں کہ بھارت میں اونچی ذات کی ہندو اکثریت جعلی ہے جو اچھوتوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں بلکہ ہندو مزاج مسلمانوں کو دھوکے سے ساتھ ملاکر بنایا گیا تھا اور اسی جعلی اکثریت کو قائداعظم نے بریوٹل یعنی خون خوار اکثریت قرار دیا تھا اس لئے آج بھی پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام مسلمان سکھوں، عیسائیوں اور اچھوتوں کو آزادانہ رائے دینے کا حق دیا جائے اور محمد علی جناح کی اس تاریخی رائے کو بنیاد بنا کر ریفرنڈم کرالیا جائے کہ کیا اونچی ذات کے ہندوئوں کی نام نہاد اکثریت واقعی خونخوار اکثریت ثابت ہوتی ہے تو نتیجہ سے مودی سمیت تمام شدت پسند اور مسلمانوں کو نابود کردینے والے ہندو لیڈروں کا ہوش ٹھکانے آجائے گا! جنوبی ایشیا کی غالب اکثریت غیر ہندو ہے اور جنوبی ایشیا کا انسان مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت اور تاج محل سمیت انکے تعمیری کارناموں اور منصفانہ حکمرانی سے بھی آگاہ ہیں، 21 صدی کا انسان مساوات اور جمہوری حقوق کا دلدادہ ہے جو انہیں صرف مسلمان حکمران دے سکتے ہیں، ہندو نے تو صرف ستر سالہ حکمرانی سے وہ انسانیت سوز مظالم کئے ہیں جن کا عشر عشیر بھی دس صدیوں کے مسلم حکمرانی کے دور میں نہیں ملے گا۔

ای پیپر دی نیشن