”حکمرانوں کا قتل اور نِیرو کی بانسُری !“

میرے والد صاحب کے ایک بزرگ دوست ریٹائرڈ ضلع دار چودھری نذیر حسین نے اُن کی اجازت سے مجھے ”جبراً“ ابتدائی فارسی پڑھائی۔ چودھری صاحب مجھے کہانی کے انداز میں بعض تاریخی واقعات بھی سُنایا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ”تاریخ کی کتاب کا جو صفحہ اچھا لگے اُسے پڑھ لو اور یاد رکھو، باقی چھوڑ دو۔ مَیں اُن کی نصیحت پر ابھی تک عمل کر رہا ہُوں اور آج مَیں اپنے قارئین اور قاریات! کی خدمت میں اپنا مطالعہ¿ تاریخ مسلط کر رہا ہُوں۔ 

"You Too Brutus"
44 قبل از مسیح روم کے ڈکٹیٹر سیاستدان جنرل اور مو¿رخ جولیس سِیزر "Gaius Julius Caesar" کے قاتلوں میں اُس کا قریبی دوست بروٹس "Marces Junius Brutus" بھی شامل تھا۔ تو سِیزر کو بہت دُکھ ہُوا اور اُس نے بروٹس سے طنزیہ کہا کہ "You Too Brutus" (یعنی بروٹس تُم بھی؟) اُس کے بعد ہر کوئی اپنے غیر وفادار دوست کو ”یو ٹو بروٹس“ کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ءکو مارشل لاءنافذ کِیا اور آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مقرر کر دِیا۔ 27 اکتوبر کو جنرل ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے جلاوطن کر دِیا۔ سابق صدر نے ایوب خان کو ”یو ٹو بروٹس“ کہا یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم۔
ذوالفقار علی بھٹو پہلے سکندر مرزا اور پھر صدر ایوب خان کی کابینہ میں شامل رہے۔ بھٹو صاحب صدر ایوب خان کو "Daddy" (اباّ جان) کہا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب نے صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلائی اور صدر ایوب خان کو (ایوب کُتّا ہائے ہائے!“ کے نعروں) کی گونج میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ جناب ایوب خان نے بھٹو صاحب کو ”یو ٹو بروٹس“ کا پیغام لِکھ کر لاڑکانہ کے پتے پر کیسے پہنچایا؟ مَیں نہیں جانتا۔ وزیراعظم بھٹو نے سات آٹھ جرنیلوں کو نظر انداز کر کے جنرل ضیاءاُلحق کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کِیا اور بعد ازاں وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کے لئے یہی طریقہ استعمال کِیا۔ جب جنرل ضیاءاُلحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم بھٹو اور وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر کے خود اقتدار پر قبضہ کِیا تو دونوں برطرف وزرائے اعظم نے اُنہیں ”یو ٹو بروٹس!“ کا پیغام کسی کبوتر کے ہاتھ بھجوایا تھا؟
فیلقوس اور قائدِ مِلّت؟
336 قبل از مسیح مقدونیہ کے بادشاہ ”فیلقوس“ (Philip ii) سکندرِ اعظم کے والد کو اُس کی بیٹی کی شادی میں بھرے دربار میں اشرافیہ کے ایک نوجوان نے قتل کر دِیا تھا۔ دربار کے محافظوں نے طیش میں آ کر قاتل کو قتل کر دِیا۔ بعض تاریخ دانوں نے لِکھا ہے کہ سکندرِ اعظم کی ماں ”ملکہ اولمپیاس“ (Olympias) اپنے شوہر کے قتل میں شامل تھی۔ سکندرِ اعظم نے اپنے باپ کے قتل کی سازش کی تفتیش نہیں کرائی۔ 12 اکتوبر 1951ءکو پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائدِ مِلّت خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ¿ عام میں قتل کر دِیا گیا۔ قاتل سَید اکبر کو جلسہ گاہ میں موجود وزیراعظم کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے فوراً قتل کر دِیا۔ قائدِ مِلّت کے قتل کی سازش کا پتہ نہیں چل سکا۔ میرا خیال ہے کہ جن ”اکابرین“ نے قائدِ مِلّت کے قتل کی سازش تیار کی تھی اُنہوں نے فیلقوس کے قتل کی سازش کی تاریخ ضرور پڑھی ہو گی۔ معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ”بڑے ملزم“ کی حیثیت سے پھانسی کی سزا ہُوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لوگ اُس پھانسی کو ”عدالتی قتل“ کہتے ہیں۔
صدر ضیاءاُلحق کا قتل
17 اگست 1988ءکو ہَوائی حادثے میں صدر جنرل ضیاءاُلحق جاں بحق ہو گئے۔ اُن کی وفات کے بعد میاں نواز شریف کہا کرتے تھے کہ ”مَیں شہید ضیاءاُلحق کا مِشن پورا کروں گا۔“ اُن کا مِشن کیا تھا؟ شاید مرحوم کے بیٹے جناب اعجاز اُلحق کو معلوم ہو گا۔ اعجاز صاحب اپنے والدِ محترم کے قتل کی سازش کے مقدمے میں مُدّعی تھے/ ہیں۔ پھر کیا بنا؟ شاید وفاقی وزیر کی حیثیت سے وزیراعظم کے مشیر جناب عرفان صدیقی جانتے ہوں جو کافی عرصہ تک اعجاز اُلحق صاحب کے ”افسرِ تعلقاتِ عامہ و خاصہ“ رہے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے بھائی؟
سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007ءکو راولپنڈی میں قتل کر دِیا گیا۔ اُن کے قتل میں جنابِ آصف زرداری اور بلاول زرداری بھٹو مدّعی نہیں ہیں۔ زرداری صاحب پانچ سال تک صدر مملکت رہے لیکن ملزموں کا پتہ نہیں چلا سکے۔ وہ کون تھے؟ شاید بھٹو خاندان کی تاریخ/ تعریف لِکھنے والے جناب بشیر ریاض اپنی کسی کتاب میں اُنہیں بے نقاب کر دیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائیوں شاہ نواز بھٹو کو بیرون ملک اور مِیر مرتضیٰ بھٹو کو محترمہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دَور میں کراچی میں قتل کِیا گیا۔ شاید بلاول بھٹو زرداری اپنے دونوں ماموﺅں کے قاتلوں کو سزا دلوا سکیں؟
نِیرو کی بانسری؟
شہنشاہ نیرو (Cladius Caesar Nero) نے 54ءسے 68ءتک روم پر حکومت کی لیکن جب (اُس دَور کے) تین صوبوں گال، سپین اور افریقہ کے گورنروں نے شہنشاہ کے خلاف بغاوت کر دی، روم میں ہر طرف افراتفری ہو گئی، مختلف گروہ ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے تھے، لوگوں کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں رہی تو نِیرو نے خُودکشی کر لی۔ بعض تاریخ دانوں نے لِکھا ہے کہ ”جب روم جل رہا تھا تو نِیرو بانسری بجا رہا تھا۔“ وہ بانسری کہاں ہے؟ کیا کسی عجائب گھر میں؟ قدیم بھارت سے آج کے بھارت تک ہندوﺅں کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کی بانسری کا چرچا ہے۔ ہندو دیو مالا کے مطابق برندرا وَن میں شری کرشن جی بانسری بجاتے تھے اور بہت سی گوپیاں (گوالنیں) بانسری کی دُھن پر رقص کرتی تھیں۔ شری کرشن جی نے راجا بن کر بانسری کبھی نہیں بجائی۔ پنجاب کی لوک کہانی ”ہِیر رانجھا“ کے مطابق جھنگ کی ہِیر سیال اور اُس کی سہیلیاں تخت ہزارہ (ضلع سرگودھا) کے رانجھا کی بانسری پر فدا تھیں۔ ہِیر کے والد سردار چوچک نے اپنی بیٹی کی شادی رنگ پور کھیڑیاں کے سَیدا کھیڑا سے کر دی تو رانجھا، ہِیر کے جہیز کا سامان لے کر رنگ پور کھیڑیاں چلا گیا تھا۔
ہمارا کوئی بھی حکمران ”بانسری نواز“ کے طور پر مشہور نہیں ہُوا۔ ایوانِ صدر میں موسیقی کی محفلیں سجانے والے سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی نہیں۔ جناب عمران خان کی یہ دھمکی ریکارڈ پر ہے کہ ”ورنہ مَیں وزیراعظم نواز شریف کے گانوں کی ٹیپ عام کر دوں گا۔“ لیکن اُنہوں نے وزیراعظم صاحب پر بانسری بجانے کا الزام نہیں لگایا۔ وزیراعظم نواز شریف جانتے ہوں گے کہ بانسری سیکھنا اور بجانا بہت ہی مُشکل کام ہے۔ چَین کی بانسری بجانا ایک ضرب اُلمِثل ہے جِس کا مطلب ہے ”بے فکر ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا۔“ اِس وقت پاکستان میں کون کون چَین کی بانسری بجا رہا ہے؟ شاید وزارتِ خزانہ/ محکمہ شماریات کے افسران جانتے ہوں؟

ای پیپر دی نیشن