لبیک اللھم لبیک (4)

حجاز مقدس کے لئے میری روانگی چونکہ اسلام آباد سے تھی جس کا مجھے سعودی سفارتخانہ کی جانب سے صرف دو روز قبل بھجوائے گئے سعودی ائرلائن کے ٹکٹ کے ذریعے علم ہوا اس لئے مجھے ہنگامی طور پر روانگی سے ایک دن قبل اسلام آباد جانا پڑا۔ پی آئی او راﺅ تحسین نے کمال مہربانی سے اسلام آباد میں شب بسری اور اگلے روز بینظیر انٹرنیشنل ائرپورٹ اسلام آباد پہنچانے کا بندوبست کرا دیا چنانچہ جدہ تک کے بالواسطہ سفر کی کئی کلفتوں سے بچ گیا جبکہ اسلام آباد ایک شب قیام کا موقع ملنے پر مجھے سعودی سفارتخانہ میں سعودی انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر حبیب اللہ البخاری سے خیر سگالی کی ملاقات کا موقع بھی مل گیا جس کا اہتمام سعودی میڈیا سیل کی کوارڈی نیٹر محترمہ ریحانہ خاں نے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ میں نے حبیب اللہ صاحب سے اپنے حجاز مقدس کے شیڈول کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ شیڈول تو سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات نے ہی مرتب کیا ہوا ہے جس کے بارے میں آپ کو سعودی عرب پہنچنے کے بعد ہی آگاہی ہو گی۔ انہوں نے مجھے سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے تین افراد کے ناموں کی فہرست فراہم کی جنہوں نے سعودی عرب میں ہماری معاونت کرنا تھی۔ ان میں ایک صاحب کا نام عبدالرحمان نیازی تھا جس سے مجھے گمان ہوا کہ یہ صاحب پاکستانی ہوں گے کیونکہ نیازی قبیلہ پاکستان کا معروف قبیلہ ہے۔ میں نے اس بارے میں حبیب اللہ البخاری صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر میری معلومات میں اضافہ کیا کہ نیازی قبیلہ سعودی عرب کا بھی معروف قبیلہ ہے اور عبدالرحمان نیازی سعودی باشندے ہی ہیں جو اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے حبیب اللہ صاحب کو بتایا کہ ہمارے اپوزیشن کے معروف سیاستدان عمران خان بھی نیازی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور نوائے وقت کے معروف کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی بھی اسی قبیلے سے ہیں۔ کیا ہم ان کا بھی سعودی باشندوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ حبیب اللہ صاحب نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ ہاں مجھے بھی ان کے بارے میں معلوم ہے۔ حبیب اللہ صاحب کی اس آگاہی سے مجھے اپنے حکمرانوں کے لئے یہ پیغام بھی چھپا ہوا نظر آیا کہ وہ جب بھی ان دونوں شخصیات سے زچ ہوں تو انہیں سعودی عرب بھجوا کر اپنے لئے ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔

سعودی حکومت کی جانب سے ہمیں حج ویزہ کے بجائے زیارت (وزٹ) ویزہ جاری کیا گیا تھا، جبکہ سعودی حکومت کی نئی پالیسی کے تحت صرف حج ویزہ رکھنے والوں کو ہی فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ہمیں اس پیچیدگی کا قطعاً علم نہیں تھا اس لئے ہمیں جدہ ائرپورٹ پر اپنے زیارت ویزہ کے باعث خاصے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ اگرچہ سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے افسران ہمیں لینے کے لئے ائرپورٹ کے اندر موجود تھے۔ ہم نے عمرہ کی نیت سے اسلام آباد سے ہی احرام باندھ لیا تھا اور ہمارے دوسرے ساتھی حنیف خالد، شوکت پراچہ اور حبیب اللہ سلفی بھی احرام باندھے ہوئے تھے اس لئے جدہ ائرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد ہمیں حج ٹرمینل کی جانب جانے والی بس پر سوار کرا دیا گیا جہاں ہمارے زیارت ویزہ نے ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور وہاں تعینات سٹاف نے ہمیں ”گرین سگنل“ دینے سے معذرت کر لی۔ ہمیں لینے کے لئے آئے سعودی وزارت کے اہلکار نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ یہ سعودی حکومت کے مہمان ہیں مگر انہوں نے قائل ہونے کے بجائے درشت رویہ اختیار کر لیا جس سے ہمیں یکایک یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں ہمیں جدہ ائرپورٹ ہی سے واپس اسلام آباد نہ بھجوا دیا جائے۔ درحقیقت جدہ ائرپورٹ کے حج ٹرمینل میں تعینات سٹاف کو صرف یہی ہدایات ملی ہوئی تھیں کہ انہوں نے صرف حج ویزہ رکھنے والوں کو کلیئرنس دینی ہے اس لئے وہ سعودی حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود ہمارے وزٹ ویزہ کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ کوئی دو گھنٹے کی بحث تمحیص، چھان پھٹک کے بعد ہمیں حج ٹرمینل سے جدہ ائرپورٹ کے دوسرے ٹرمینل بھجوایا گیا جہاں ائرپورٹ سے باہر نکلنے کی کلیئرنس لیتے لیتے ہمارے مزید دو گھنٹے ضائع ہو گئے اور اس طرح اسلام آباد سے جدہ ائرپورٹ رات بارہ بجے کے قریب پہنچنے کے باوجود ائرپورٹ سے باہر آتے ہوئے ہمارے پانچ گھنٹے صرف ہو گئے۔ میں نے امیگریشن کے تمام مراحل طے ہونے کے بعد عبدالرحمان نیازی کو فون کیا تو انہوں نے دس منٹ کے اندر اندر اپنا آدمی ہمارے پاس بھجوا دیا۔ ہمارا گمان تو یہی تھا کہ ہمیں عمرہ کی ادائیگی کے لئے ائرپورٹ سے سیدھا مکہ مکرمہ لے جایا جائے گا مگر ہمیں قیام کے لئے جدہ کے ہوٹل ”موو ان پک“ پہنچا دیا گیا جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ سعودی پرنس طلال کے بیٹے ولید کی ملکیت ہے۔ ہمیں حجاز مقدس پہنچنے کے بعد فوری طور پر عمرہ کی ادائیگی کا شرف حاصل نہ ہو پانے کا خاصہ افسوس ہوا اور ساتھ ہی یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا کہ کہیں حج ویزہ نہ ہونے کے باعث تو ہمیں جدہ میں نہیں روک لیا گیا؟ اس ہوٹل میں ہماری معاونت کے لئے ایک پورے فلور پر میڈیا سنٹر قائم کیا گیا تھا جہاں سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کے ڈائریکٹر خالد ایم الشمسن اور دوسرے حکام نے بھی اپنے کیمپ آفس قائم کر رکھے تھے۔ عبدالرحمان نیازی سے بھی یہیں ملاقات ہوئی اور ہمیں اپنے شیڈول سے آگاہی ملی جس کے تحت ہمیں پہلے مدینہ منورہ لے جایا جانا تھا اور وہاں سے ہم نے عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آنا تھا۔ چنانچہ مجبوراً ہمیں احرام اتارنا پڑے کیونکہ شیڈول کے مطابق مدینہ منورہ ہماری روانگی تین روز بعد تھی اور ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ آپ کو مدینہ منورہ سے واپسی پر میقات میں احرام باندھنا ہو گا۔ اس شیڈول کی بنیاد پر ہمیں یہ اطمینان تو حاصل ہو گیا کہ وزٹ ویزہ کے باوجود ہم مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ بھی جا رہے ہیں اور تمام مناسک حج ادا کر رہے ہیں جس کے لئے سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات نے پورا اہتمام کر رکھا تھا چنانچہ ہمیں سعودی حکومت کے ایام حج کے لئے متعینہ پیرامیٹرز کے باوجود وزٹ ویزہ رکھتے ہوئے بھی حرمین شریفین جانے اور روضہ¿ رسولﷺ پر حاضری دینے کے ساتھ ساتھ بارگاہ ایزدی میں عمرہ اور فریضہ¿ حج ادا کرنے کا بھی سعودی حکام نے پورا موقع فراہم کر دیا۔ ہمیں وزٹ ویزے پر بلوا کر ہماری فریضہ¿ حج کی ادائیگی کا شیڈول بھی یقیناً کسی حکمت کے تحت ہی مرتب کیا گیا ہو گا ورنہ تو وزٹ ویزہ ہونے کے باعث سعودی حکومت کے وضع کئے گئے حج قوانین ہمارے راستے میں حائل ہو جاتے۔ چونکہ ہمیں جدہ میں زیادہ قیام کا موقع مل گیا اس لئے ہمیں جدہ میں نوائے وقت کے بیوروچیف امیر محمد خاں اور جدہ ہی میں عرصہ دراز سے مقیم ہمارے ایک عزیز حکیم محمد ایوب نے جدہ کی روزانہ کی بنیاد پر سیر کرانے اور اس کے اہم مقامات سے آگاہی حاصل کرنے کا بھی خوب موقع فراہم کر دیا۔ ہم نے جدہ کے سرور پیلس کی جھلک بھی دیکھ لی جہاں ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ جلاوطنی کے شاہانہ دن گزارے ہوئے ہیں۔ امیر محمد خاں ہمیں جدہ کے معروف سرکاری اردو اخبار اردو نیوز کے دفتر بھی لے گئے جہاں اردو نیوز کے نیوز ایڈیٹر ابصار علی، لیاقت انجم اور دوسرے احباب سے گپ شپ کا خوب موقع ملا۔ یہ محفلِ دوستاں ایسی سجی کہ اپنائیت کے انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ حکیم ایوب نے جدہ میں میاں نواز شریف کی ایک ایسی جائیداد سے بھی آگاہ کیا جو ابھی تک کسی کی نظروں میں نہیں آئی اور پانامہ لیکس کے دائرے سے بھی باہر ہے۔ یہ جائیداد جدہ کے وسط میں اڑھائی تین ایکڑ کے قطع اراضی پر تعمیر کرائے گئے رہائشی فلیٹس پر مشتمل ہے جو کرائے پر دئیے جاتے ہیں۔ حکیم ایوب کے بقول سعودی فرمانروا نے یہ قطع اراضی میاں نواز شریف کو جلاوطنی کے دوران گفٹ کیا تھا۔ حکیم ایوب چونکہ جدہ کے اسی علاقہ میں سالہا سال سے مقیم ہیں جہاں یہ فلیٹس موجود ہیں اس لئے ”دروغ برگردن راوی“ ان کی معلومات مصدقہ ہی ہوں گی۔
(جاری)

ای پیپر دی نیشن