ہماری خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز

اگر بظاہر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے افق پر دہشت گردی انتہاءپسندی لاءاینڈ آرڈر اور سب سے بڑھ کر بریکنگ نیوز کے زمرے میں حکمران شریف خاندان کے خلاف پانامہ سکینڈل کے مقدمات کا ایک ایسا ڈرامائی سلسلہ عدالتوں کے اندر اور باہر نفسیاتی طور پر تمام ہیڈ لائنز خبروں پر چھایا ہوا ہے۔ اس داخلی پس منظر میں جب خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی خبر آسمان سے بجلی بن کر گرتی ہے تو ہر چند وہ عوام کے سروں کے اوپر سے ان کے شعور میں کوئی ہلچل پیدا کئے بغیر لاعلمی کے باعث بغیر کوئی گہرا اثر کئے گزر جاتی ہے اور عوام کے علاوہ سوشل میڈیا بھی حلقہ نمبر NA-120 بیگم کلثوم نواز کی صحت اور مستقبل سیاسی کردار اور ان عدالتوں کی طرف قوم کی توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ جہاں سابق وزیراعظم اور انکے خاندان کے مختلف افراد کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ایسے منظرنامے میں قوم کی بے حسی یا بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ میں نے خود اپنے کانوں سے اچھے بھلے پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان سے ایسی بدگمانی کا اظہار سنا ہے جیسے پاکستان کی خداناخواستہ کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں۔ قارئین نے بھی اکثر یہ شکوہ سنا ہو گا کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ سابق وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف بذات خود اس قلمدان کے انچارج تھے اور امور سلطنت پر ان کی سیاسی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ راقم آج بھی ان کو سابق کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے (وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب سے معذورت کے ساتھ) میں آج بھی برادرم خواجہ محمد آصف کی بطور مستقل وزیر خارجہ کی تقرری کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو ہی دیتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ساتھ لے جانے کا فیصلہ شاہد خاقان عباسی صاحب نے خود ہی کیا ہو حالانکہ بعض احباب کو اس پر بھی شک ہے۔ مندرجہ بالا ماحول اور پس منظر میں پاکستان نیشنل فورم نے 27 ستمبر بروز بدھ وار لاہور کے ایک نجی کلب میں جناب خورشید محمود قصور سابق وزیر خارجہ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنجز اور ساتھ ہی ان OPPORTUNITIES کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ اس کیلئے پاکستان نیشنل فورم ان کا دلی ممنون ہے۔ شرکاءکی جو لاہور کے ہر شعبہ حیات کی نمائندگی کرتے تھے اور جن میں مختلف یونیورسٹیز کے شعبہ پولیٹیکل سائنس پاکستان سٹڈی اور انٹرنیشنل تعلقات کے فکلٹی ممبران اور پوسٹ گریجوایٹ طلباءبھی شریک تھے۔ تقریبا تین گھنٹے کے دورانیہ میں اس علمی محفل میں بھرپور حصہ لیا۔ دوستانہ اور غیر رسمی ماحول میں یہ سلسلہ گفتگو دو گھنٹے سوال جواب کی صورت میں جبکہ ایک گھنٹہ خورشید قصوری صاحب کے انتہائی معلوماتی اور ذاتی تجربات و مشاہدات پر مشتمل تھا۔صدر پاکستان نیشنل فورم کی حیثیت میں راقم نے اپنے استقبالیہ میں فورم کی طرف سے مندرجہ ذیل پانچ سوالات ان کی وضاحت کیلئے اٹھائے جو نہایت استفسار کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔
-1 حال ہی میں امریکہ کے صدر نے جس نئی US-SOUTH ASIA پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کی پاکستان کے حوالے سے وضاحت اور IMPLICATION کھل کر اجلاس کو اعتماد میں لیں۔-2 اندریں حالات ایسے ریجنل سکیورٹی ماحول میں پاکستان کے پاس کیا فارن پالیسی آپشن ہیں۔-3 کیا حالیہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان نے بھر پور ڈپلومیٹک اقدامات اٹھاتے ہوئے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان دشمن مختلف نوعیت کے پروپیگنڈے COUNTER-NARRATIVE پیش کیا۔-4 پاکستان کے حالیہ اندرونی سیاسی عدالتی اور اقتصادی بحرانی کیفیت سے نجات حاصل کر لینے کے بعد مملکت خداداد ایک پائیدار اور جاندار ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی طرف مثبت پیش قدمی کر پائے گی۔ جو پاکستان کے سٹرٹیجک مفادات کی محافظ اور دامن ہو۔-5 آج کچھ عرصوں سے سوئٹزر لینڈ میں (فری بلوچستان) کے عنوان سے ایک انتہائی گمراہ کن پاکستان مخالف مہم جاری و ساری ہے۔ اسکے جواب میں حکومتی اقدامات کے بارے میں کیا آپ تبصرہ کرینگے۔
راقم نے جب اپنے سوالات ختم کئے تو جناب قصوری صاحب نے فوری طور پر اپنا تبصرہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے موجودہ فارن پالیسی کے حوالے سے سب سے اہم ایشو کا سوال نہیں اٹھایا اور وہ ہماری خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سب سے اہم چائنہ فیکٹر ہے جس کو خارجہ پالیسی کے چیلنجز کے حوالے سے نعرہ بازی سے ہٹ کر اور جذبات پر قابو رکھتے ہوئے عالمی منظرنامہ کے پس منظر اور ریجنل یعنی علاقائی حوالے سے بالخصوص حقیقت مندانہ انداز میں جانچنا لازم ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کو ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہرا کہنے سے جوش تو ضرور ظاہر ہوتا ہے لیکن ہوش کے تقاضے حقیقت پسندانہ اور ٹھوس شواہد کا تقاضا کرتے ہیں جب ہم چین کی ترقی اور ہر شعبہ میں مثالی کردار کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے پیچھے چین جیسے عظیم ملک اس عظیم قوم کے ہر شعبہ میں عظیم کردار کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ چین کی نصف صدی کی قومی جدوجہد اور بے مثال قیادت کی وحدت فکر پوری دنیا کے سامنے ایک کتاب کی طرح کھلا ثبوت ہے۔ مت بھولیں کہ چین کا باعزت اتحادی بننے کےلئے ہمیں اپنی گزشتہ نصف صدی کا ہر شعبہ میں NARRATIVE پیش کرنے کیلئے قومی اہداف کے حصول کا گراف بھی چین کے سامنے پیش کرنا لازم ہے۔ بلکہ پیش کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ ہمارا گزشتہ نصف صدی کا ہر شعبہ زندگی کا ریکارڈ تاریخ کی دیوار پر نقش ہے۔ مختصراً اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کردار کے ہر شعبہ میں ہم دونوں ملک 1947ءمیں کہاں کھڑے تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں۔
یاراں تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالاں جرس کارواں رہے
اس کالم کی محدود SPACE مزید تفصیلات کی اجازت نہیںدیتی جو انشاءاللہ اگلے کالم میں پیش خدمت کروں گا لیکن اس مجلس میں جن خواتین و حضرات نے شرکت کی ان میں سے بعض کے نام پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اس اجلاس کی صدارت سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل یستور الحق ملک نے فرمائی۔ مہمان گرامی میں مندرجہ ذیل شخصیات نے شرکت فرمائی۔
جناب جسٹس شیخ ریاض احمد سابق چیف جسٹس آف پاکستان‘ جناب ایس ایم ظفر سابق سینیٹر اور فیڈرل لاءمنسٹر‘ جناب جسٹس فقیر محمد کھوکھر سابق جج سپریم کورٹ پاکستان‘ لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر سابق کور کمانڈر کراچی‘ میاں افضل حیات سابق چیف منسٹر پنجاب‘ جناب خالد محمود سابق وفاقی محتسب‘ ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک بشپ آف لاہور‘ بیگم مہناز رفیع سابق ایم این اے‘ بیگم آمنہ الفت سابق ایم پی اے‘ جناب قیوم نظامی سابق وزیر سینئر کالم نویس دانشور‘ جناب انور کمال سینئر ایڈووکیٹ آف پاکستان‘ ائیر وائس مارشل انور محمود‘ جناب سلیمان خان چیئرمین سندھ طاس واٹر کونسل‘ جناب آئی اے رحمن‘ جناب راحت مسعود‘ جنرل میاں ندیم اعجاز‘ میجرجنرل مصطفی انور حسین شامل ہیں۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن