نیویارک (نوائے وقت رپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے، خطے میں امن کی خواہش پر کابل کا دورہ کیا، بھارت مذاکرات سے بھاگ رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق پامال کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ آپشن نہیں واحد حل مذاکرات ہیں۔ سابقہ پاکستانی حکومتیں طالبان کی حامی نہیں ملکی مفاد کی حمایت کرتی رہی ہیں، یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ طالبان کو کس نے تربیت دی تھی، ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ حالات کے ساتھ دوست بھی بدل جاتے ہیں، عالمی طاقت کے طور پر امریکہ خصوصی حیثیت چاہتا ہے، پاکستان امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتا ہے لیکن استثنائی بنیادوں پر نہیں ہم چین اور دیگر ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں، امریکہ خطے میں نئے دوست ڈھونڈ رہا ہے تو ہمارے پاس بھی آپشن ہیں، پاک بھارت تنازعہ کا کوئی عسکری حل نہیں، دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، پاک بھارت مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کو نئی بدلتی سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی سے کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا، پاکستان سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے ............ ............ ہم چاہتے ہیں افغانستان میں امن و استحکام افغانستان میں امن ہو گا تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں، تعمیری تعلقات کی ضرورت ہے اس کا راستہ مذاکرات ہیں، اگر امریکہ چاہتا ہے کہ ہم مدد کریں تو ہمیں مشرقی سرحد پر محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، ایک ملک کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا امن خطرے سے دوچار ہے، بھارت جب بھی بات چیت کیلئے تیار ہو گا پاکستان پیچھے نہیں ہٹے گا۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کافی پیچیدہ ہے، مشرق وسطیٰ کی نسبت افغانستان میں وسیع مواقع موجود ہیں۔ ہم پڑوسی ہیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ امریکہ کو سوچنا چاہئے کہ جو مقاصد حاصل نہ کر سکا اس کی وجوہات کیا ہیں، پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات اہم ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ واشنگٹن کا راستہ کابل سے گزرتا ہے، میری کوشش ہے دوستوں کو کھونا نہیں چاہئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت کے حامی ہیں، سی پیک سے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان میں مکمل اتفاق رائے ہے کہ سی پیک ہمارے مفاد میں ہے، سی پیک کے تحت جاری منصوبے مکمل کریں گے، پاکستان کیلئے امریکہ اور چین دونوں اہم ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ محمود قریشی نے ایشیا سوسائٹی سے خطاب کرتے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں، جنوبی ایشیا میں امریکہ کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، آٹھ سال پہلے یہاں آیا تھا اس عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے، امریکہ نے خطے میں نئے دوست بنائے ہیں، امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے آیا ہوں، امریکہ اپنے دوست بھارت کو امن مذاکرات پر راضی کرے۔ بھارت نے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کو یرغمال بنا رکھا ہے، افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کی بحالی صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں۔ حالیہ الیکشن کے نتیجے میں پاکستان میں تبدیلی آ چکی ہے۔ پاکستانی عوام سابقہ حکومتوں سے مایوس تھے، تبدیلی کیلئے ووٹ دیا، پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پچھلے دور میں ملکی سیاست پر ایک خاندان کا تسلط تھا ہم نے قابل افراد کو حکومت میں ذمہ داریاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں۔ دوسری طرف پاکستان اور بحرین نے باہمی تجارت کے حجم میں اضافے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اتفاق نیویارک میں وزیر خارجہ شاہ محمود اور انکے بحرینی ہم منصب کے درمیان ملاقات میں کیا گیا۔ وزیر خارجہ اور ان کے بحرینی ہم منصب شیخ خالد بن احمد الخلیفہ کی ملاقات کے بعد جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماﺅں نے باہمی تجارت کو بڑھانے اور تجارتی و سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
شاہ محمود