اسلام آباد (نامہ نگار) سینٹ میں اپوزیشن نے و فاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کے اپوزیشن کے بارے میں ریمارکس پر شدید احتجاج کیا اور قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں شدید تلخ کلامی ہو گئی۔ اپوزیشن ارکان نے وزیراطلاعات کے سینٹ میں ایک ماہ تک داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سینیٹر مشاہداللہ خان نے وزیراطلاعات کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر ان کے خلاف تحریک استحقاق پیش کردی ہے اور کہا ہے کہ وزیر اطلاعات کے معافی نہ مانگنے کی صورت میں سینٹ کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں لوگوں کو گالیاں بکتے ہیں آپ کو کس نے حق دیا کہ کسی کو گالی دیں،کیسا وزیر اطلاعات ہے جس کو حقائق کا علم ہی نہیں ہے، آپ مدینہ کی ریاست کے وزیر ہیں یا محمد شاہ رنگیلا کے وزیر ہیں کہ مجروں کی باتیں کرتے ہیں، میں چھوڑوں گا نہیں، میرا نام لیا گیا ہے اس کو نانی یاد دلا دوں گا، میں کہتا ہوں اگر عمران خان نے اب اس کو وزارت سے نہ ہٹایا تو پھر جوتے مار کر ہٹائے گا۔ چیئرمین سینٹ کی جانب سے وزیراطلاعات کے سینٹ میں بھی معافی مانگنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے، اجلاس میں قلات میں دہشتگردی کے واقعے میں شہید ہونے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے لیے فاتخہ خوانی بھی کی گئی۔ سینٹ میں ضمنی مالیاتی بل پر بحث کے دور ان وزیر خزانہ کی عدم موجودگی پر اپوزیشن نے احتجاجاً واک آٹ کیا۔ چیئرمین سینٹ نے وزرا کی فہرست طلب کرلی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ ایڈیشنل سیکرٹری سے کم درجے کا افسر نہ آئے۔ اگر ایڈیشنل سیکرٹری سے کم افسر آیا تو متعلقہ حکام کو معطل کردوں گا، چوہدری تنویر نے کورم کی نشاندہی کی۔ کورم پورا نہ ہونے پر چیئرمین نے اجلاس پیر کی سہہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔ سینیٹر مشاہداللہ خان نے چوہدری فواد حسین کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں چیلنج کیا کہ وہ یہ بے بنیاد الزامات ثابت کریں۔ پیپلزپارٹی کو ڈاکو چور کہنے والے وزیر اطلاعات کا اپنا ماموں پیپلز پارٹی میں ہے، قومی اسمبلی میں جس طرح کی گفتگو کی گئی چور ڈاکو اور مجرے کے الفاظ استعمال کیے گئے، آپ کو پارلیمنٹ میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں پہلے کچھ سیکھیں، آپ ڈیسک بجوا کر بہت خوش ہوتے ہیں، آپ شروع وہاں سے کرتے ہیں جہاں ختم کرنا ہوتا ہے، میں کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن یہی موصوف بارہا میرے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ میں پی آئی اے میں لوڈر تھا یعنی میں مزدور تھا مزدور ہونا کون سی بری بات ہے۔ میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میرا بھائی ہیتھرو ائیر پورٹ پر سٹیشن منیجر لگنے سے پہلے مشرف دور میں واشنگٹن میں سٹیشن منیجر اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نیویارک میں ڈپٹی سٹیشن منیجر رہ چکا ہے، میرا یہ بھائی اس وقت جب اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بندہ یونین کا الیکشن نہیں جیت سکتا تھا صرف ان کا حمایت یافتہ جیتتا تھا راولپنڈی گارڈن کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے یونین کا صدر بنا، جس پر سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ ہاں میں نے بھی ان کو ووٹ دیا تھا تو مشاہداللہ خان نے کہا کہ صرف آپ نے نہیں بلکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس کو ووٹ دیا تھا۔ مشاہداللہ خان نے کہا کہ میں تحریک استحقاق بھی پیش کروں گا جس پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آپ تحریک استحقاق پیش نہ کریں یہ معاملہ چیمبر میں حل کرلیں گے۔ مشاہداللہ خان نے کہا کہ موصوف وزیر کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ میں نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں بھرتی کرایا ورنہ وہ یہاں آکر ایوان کے سامنے معافی مانگیں، اگر معافی نہیں مانگیں گے تو ہاﺅس نہیں چلے گا۔ اس دوران قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز اور وزیر مملکت اعظم سواتی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور ان کی مشاہداللہ خان سے شدید تلخ کلامی ہو گئی، مشاہداللہ خان نے کہا کہ ہم شبلی فراز کا احترام کرتے ہیں ورنہ یہ ایوان ایک دن بھی نہ چلے۔ آپ حکومت میں ہیں برداشت کریں آپ کی حکومت تو سلیکٹ ہو گئی ہے اور آپ کو زبردستی لا کر بٹھا دیا گیا ہے اب برداشت کرنا بھی سیکھیں۔ چیئرمیں سینٹ کے روکنے کے باوجود مشاہداللہ خان نے تحریک استحقاق پیش کر دی اور کہا کہ اس کو کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے لیکن چیئرمین سینٹ نے کہا کہ نہیں اس کو چیمبر میں حل کروں گا، رولنگ دوں گا کیونکہ دوسرے بھی ایوان زیریں کے رکن ہیں۔ مشاہداللہ خان نے کہا کہ معاملے میں ایوان میں ہی حل کیا جائے کیونکہ میرا نام بھی دوسرے ایوان میں ہی لیا گیا ہے، چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس طرح کی تحریک استحقاق کا فیصلہ چیمبر میں ہوتا ہے اور وہ چیمبر میں ہی اس پر رولنگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا اس پر انہوں نے معذرت کرلی ہے اور اس پر میں نے اور قائد ایوان سینٹ نے سپیکر سے بھی ملاقات کی جس پر سپیکر نے بتایا کہ انہوں نے وہ ادا شدہ کلمات ایوان کی کارروائی سے حذف کرا دیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات ایوان بالا میں بھی آ کر معذرت کریں گے۔ اس کے بعد قائد ایوان سینیٹرشبلی فرازکھڑے ہوئے اور کہا کہ مشاہد اللہ خان کی دلآزاری ہوئی ہے ہم ان کے ساتھ ہیں معذرت بھی کی تھی ان کا حق بنتا ہے کہ اگر انکے حوالے سے باتیں درست نہیں ہیں تو جو بھی راستہ بنتا ہے اختیار کریں، سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ وزراءکی طرف سے بولتے بولتے راجہ ظفرالحق کی بھی یہ حالت ہوگئی ہے اگر وزراءایوان میں نہیں آئیں گے تو شبلی فراز ابھی تو آپ وہاں بیٹھے شہزادے لگ رہے ہیں لیکن آپ بھی وزراءکی طرف سے بولتے بولتے ویسے ہی ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ میرا دل تو نہیں کہتا کہ خان صاحب جیسے شہزادے کو یو ٹرن کا نام دوں لیکن آپ کے اقدامات سے یہ نام تو پڑ جائے گا، اگر آپ کی یہی پالیسی رہی تو اللہ ہی حافظ ہے، بعض وزراءحکومت کو بیڑا غرق کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں پہلے بھی دیئے جاتے تھے اب بھی دیئے گئے ہیں۔ عبدالرحمان ملک نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان پر جو بے بنیاد الزامات لگائے ہیں اس کے حوالے سے وزیر خارجہ کو انہیں جواب دینا چاہئے تھا، وہ واپس آتے ہیں تو اس سلسلے میں ایوان میں بھی ان سے اس حوالے سے سوال کیا جائے گا۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ حکومت نے متحدہ عرب امارات کے شیخ راشد المکتوم کو ڈیڑھ سو عقاب پاکستان سے لے جانے کا پرمٹ دیا ہے اور وہ کل یہ عقاب کراچی سے لے کر جائیں گے، یہ اجازت دفتر خارجہ کے ذریعے دلوائی گئی ہے، اس حوالے سے تحریک انصاف ہم پر تو تنقید کرتی تھی اب اپنے آپ پر بھی نظر ڈالے میں کون کون سے یو ٹرن ان کو یاد دلاﺅں۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ پانی کے مسئلے پر آج بھی پورے سندھ میں دھرنے ہورہے ہیں سندھ کو بلوچستان کو مختلف اداروں کے بورڈز میں نمائندگی نہیں دی گئی ہے اس سے معاملات کس طرح حل ہوں گے، ہمیں سندھ میں ریفیوجیز کے معاملے پر بھی تحفظات ہیں ہم اس کو نہیں ہونے دیں گے صوبوں سے پوچھے بغیر فیصلے نہیں ہو سکتے۔
سینٹ