لاہور(رفیعہ ناہید اکرام) گھریلو تشدد، پسند کی شادی، بچوںکی حوالگی اورمعاشی تنگدستی کے باعث سال 2018کے پہلے 8ماہ کے دوران 772 خواتین 219 بچوں کے ہمراہ صوبائی دارالحکومت کے واحد دارالامان کا رخ کرنے پر مجبور ہوئیں۔ محکمہ سوشل ویلفیئر کے زیرانتظام بند روڈپر قائم دارالامان میں جنوری سے اگست تک 991بچے اور خواتین پناہ کے حصول کیلئے آئے۔ 50 افراد کی گنجائش والی عمارت میں ماہانہ 100 سے زائد خواتین اور بچے قیام پذیر رہے جس سے انتظامیہ کو بھی خوراک اور رہائش کے انتظامات میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا رہا۔ نوائے وقت سے گفتگومیں دارالامان میں مقیم خواتین نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایاکہ گھروالے بات نہیں سنتے، خرچہ نہیں دیتے، ہمیںگھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے، قصور جس کابھی ہو مورد الزامعورت کو ہی ٹھہرایاجاتاہے، جب چاہیں بچے چھین کر گھر سے نکال دیتے ہیں والدین پھر واپس بھیج دیتے ہیں تو ہم کہاں جائیں، عورت کا کوئی گھر نہیںتو پھر دارالامان ہی سہی۔ انچارج مصباح رشید نے بتایاکہ خواتین بھی انسان ہیں شادی کردینے کایہ مطلب نہیں کہ میکے والوںسے انکا رشتہ ختم ہوگیاہے بلکہ شادی سے پہلے بھی انکی رائے کو اہمیت دی جائے اور شادی کے بعد ان کی شکایات پر کان دھرا جائے ہمدردی سے اس کا حل نکالا جائے تو حالات کبھی اس نہج کو نہ پہنچیںکہ انہیںپناہ کے حصول کیلئے گھر سے باہر نکلنا پڑے۔