اتوار ‘ 29 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 29ستمبر 2019 ء

بارش کے باعث پاکستان‘ سری لنکا کے مابین پہلا کرکٹ میچ منسوخ
ابھی غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان آکر کھیلنے کی حامی ہی بھری تھی سری لنکا کرکٹ ٹیم خوشی خوشی کراچی آئی ہزاروں لوگوں نے ٹکٹ بھی خریدے کہ گراؤنڈ میں جا کر میچ دیکھیں گے۔تیاریاں پوری طرح مکمل تھیں حفاظتی انتظامات بھی بہترین تھے۔ مگر کیا کیا جائے اس قدرتی دہشت گرد بارش کا جو سارے معاملے کو چوپٹ کر گئی۔ ویسے تو کئی دنوں سے کراچی بارش کی زد میں تھا مگر میچ والے دن سے قبل پریکٹس ڈے سے ہی اس‘ نے ایسا رنگ جمایا کہ کھیل کے سارے رنگ بھنگ ہو گئے۔ اب بھلا قدرتی معاملات پر کسی کا زور کیا چلتا۔ پاکستان اور سری لنکا کی ٹیم نے بوریا بستر سمیٹا اور اپنے ہوٹلوں میں چلے گئے۔ اب بھی یہی صورتحال جاری ہے۔ پہلا میچ تو چلیں صبر و شکر کر کے منسوخ کر دیا گیا۔ مگر یہ جو دوسرا میچ بھی بارش نے ڈبو دیا۔ اس پر تو شائقین…؎
بھری برسات میں جی جلایا
وے جا تیرا ککھ نہ روے
کہہ رہے ہیںاب یہ دوسرا میچ منسوخ تو نہیں ہوا مگر کل تک کے لئے ملتوی ہوا ہے۔ یعنی کل ہو گا۔ اب وہی بات کل کس نے دیکھی ہے۔ اگر کل بھی ابر کرم اسی طرح کھل کر برسا تو پھر ہم کیا…؎
اے ابر کرم آج اتنا برس
اتنا برس کہ وہ جانہ سکیں
کہتے ہوئے سری لنکا کی ٹیم کی طویل میزبانی کی دعائیں کرتے رہیں گے ۔ تیسرا میچ بھی 3 اکتوبر کو کھیلنے کے اعلان کے ساتھ پی سی بی نے عوام کے موڈ کو دیکھ کر اعلان کیا ہے کہ منسوخ ہونے والے میچ کے پیسے واپس کیئے جائیں گے۔ اس طرح کم از کم ٹکٹ لینے والوں کو تسلی ہوئی ہو گی کہ ان کے پیسے تو ڈوبنے سے بچ گئے۔ ورنہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں جسطرح کراچی بارش کے بعد سیلاب میں ڈوب جاتا ہے ان کے پیسے بھی نہ ڈوب جائیں۔
٭…٭…٭
سندھ کے پولیس کے 50ڈاکوئوں کے مخبر اہلکار ضلع بدر
یہ قسمت کے مارے وہ ہوں گے جن کی اپنی مخبری ہوئی ہوگی۔ ورنہ مخبری کرنے والے 50کیا 5ہزار بھی ہو سکتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ کون سا ناجائز دھندا یا کام ایسا ہے جو پولیس والوں کی ملی بھگت یا صاف کہیں پرستی میں نہیں ہوتا۔ بااثر لوگ ہمیشہ پولیس کی مدد سے ہی ہر وہ کام کراتے ہیں جو غیر قانونی ہوتا ہے۔ پولیس والوں کو ایسے تمام ٹھکانوں کی خبر ہوتی ہے مگر وہ ایکشن نہیں لیتی ہاتھ نہیں ڈالتی کیونکہ ؎
ہم کو معلوم ہے دشمن کے ہر ٹھکانے کا
شریک جرمانہ ہوتے تو مخبری کرتے
سو جناب یہ جو 50مخبر نکلے ہیں دیکھ لیں ان کو صرف ضلع بدری کی سزا ملی ہے۔ سبھی جانتے ہیں یہ کوئی کڑی سزا نہیں۔ صرف علاقہ بدلا ہے کام تو نہیں بدلا یہ مخبر اہلکار دوسرے ضلع میں جا کر مجاوری تو نہیں کرینگے وہاں بھی یہ مخبری کرینگے۔
اگر اعلیٰ حکام نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ مخبر ہیں تو یہ معلوم کیوں نہیں کیا کہ یہ کن کیلئے مخبری کرتے تھے۔ ملزم ہاتھ آئے ہوں تو ایسی باتیں اگلوانا کون سی مشکل کام ہے۔ اگر پولیس سے یہ نہیں ہوتا تو نیب والوں کی خدمات حاصل کر لیتے یہ 50 اہلکار تو کیا وہ تو پورے 5ہزار سے بھی بہت کچھ اگلوالیتی۔ کیا یہ اپنوں کے ساتھ رعایت والی بات نہیں۔ہونا تو چاہئے تھا کہ ان کی وردی اتروالی جاتی اور ان کے سر پرستوں کو پکڑ کر داخل زندان کر دیا جاتا۔ مگر شاید سندھ پولیس کے پاس ایسا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے یا اختیار نہیں ہے۔
٭…٭…٭
بچوں کو دودھ پلانے والی 2½ ہزار سال پرانی بوتلیں برآمد
ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ جدید دور میں یہ وبا پھیلی ہے کہ مائیں بچوں کا اپنا دودھ پلانے کی بجائے بوتل سے بازاری یا ڈبے کا دودھ پلا ناپسند کرتی ہیں۔ مگر ان قدیم بوتلوں کی دریافت کے بعد کیا اکثر لوگوں کو اپنے خیالات و نظریات پر نظرثانی کرنا پڑیگی۔ یہ کوئی 2 یا 3 سو سال پرانی بات نہیں اڑھائی ہزار سال پرانی روش ہے۔ قدیم دور میں بھی خواتین نسوانی حسن کی حفاظت کے نام پر ہمارے جدید دور کی خواتین کی طرح بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی ہونگی۔ اس وقت کا تو پتہ نہیں مگر آجکل کے دور میں دنیا بھر کے ڈاکٹر تو دہائی دے رہے ہیں مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلا کر ان کو بیماریوں سے بچائیں اور خود بھی بریسٹ کینسر سے محفوظ رہیں۔ قدیم دور میں کوئی اعلامیہ شاہدیہ ہی جاری ہو کیونکہ اس دور میں نہ اخبار تھے نہ ٹی وی نہ نیٹ اور موبائل اسکے باوجود حیرت سے بوتل سے بچوں کو دودھ پلانے کا رواج تھا۔ یہ بوتلیں جرمنی کے ایک شہر میں بچوں کے قدیم قبرستان سے ملی ہیں جنہیں بچوں کے ساتھ دفن کیا تھا۔ یہ ایک بڑی دریافت ہے۔ اب آج کل کی مائیں کہہ سکیں گی کہ وہ کوئی نیا کام نہیں کر رہیں۔ دور قدیم سے ہی یہ رواج موجود تھا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے مٹی کی بنی بوتلیں ہوتی تھیں اب شیشے اور پلاسٹک کی بنی بوتلیں استعمال ہو رہی ہیں۔ اصل معاملہ پہلے بھی صنف نازک کی خوبصورتی اور فٹنس کا تھا اور آج بھی وہی ہے۔ اس پر خواتین نے پہلے بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا آج بھی وہ اس پر کوئی کمپرومائیزکرنے پر تیار نہیں۔ حالانکہ یہ غلط سوچ ہے جو پہلے بھی غلط تھی آج بھی ہے لگتا ہے زمانہ بدلا ہے مگر سوچ نہیں بدلی۔
٭…٭…٭
پشاور میں احتجاجی ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج‘ 12 گرفتار
یہ خیبر پی کے کی حکومت نے گھاس پھونس کے خشک ڈھیر پر کیوں جلتی ہوئی دیا سلائی پھینک دی۔ کیا پشاور کی انتظامیہ کو پتہ نہیں تھاکہ اب صوبے بھر میں ڈاکٹروں نے کیا کرنا ہے۔ اب ان سے کیسے نپٹا جائے گا۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر نام کے مسیحا ہیں۔ چلیں سب کی بات نہیں کرتے کچھ کو نکال کر تو سب قصا بسی کہلانے کے لائق ہیں۔ اپنے مطالبات کی بات ہو تودنگا فساد مار پیٹ اور کام تک چھوڑ دیتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں لاکھوں مریض رُل جاتے ہیں۔اس پر تماشہ یہ تو دیکھیں کہ یہی احتجاجی ڈاکٹر ہڑتال کے دنوں میں کام نہ کرنے کے باوجود تنخواہیں پوری لیتے ہیں۔صرف یہی نہیں دن کو آتش فشاں نظر آنے والے یہ ڈاکٹر شام کو اپنے نجی کلینکس میں بڑے اطمینان سے بھاری بھر کم فیسوں کے عوض مریض کو لوٹ رہے میرا مطلب ہے چیک کر رہے ہوتے ہیں، انہیں اصل تکلیف صرف سرکاری ڈیوٹی انجام دینے سے ہوتی ہے جسکی تنخواہ لینے کے باوجود ان کا دل نہیں چاہتا کہ غریبوں کی خدمت کریں انہیں مفت یاارزں علاج معالجہ فراہم کر کے ثواب حاصل کریں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے بے حسی کے قصے عام ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پیرا میڈیل سٹاف کا بھی یہی رویہ ہے بلکہ یہ تو ڈاکٹروں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ایک تو کر یلا اوپر سے نیم چڑھا‘‘۔ سو یہی رویہ ان کا ہوتا ہے۔ اگر ان احتجاجی ڈاکٹروں کے مطالبات درست ہیں تو ان پر غور کیا جائے ان کو پورا کیا جائے مگر اسکے ساتھ ہی ڈاکٹروں کی ہڑتال پر بھی پابندی لگائی جائے۔

ای پیپر دی نیشن