وزیراعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی میں چار اہم نکات پر چشم کشا مفصل خطاب اور بھارتی عزائم کیخلاف عالمی قیادتوں کو وارننگ
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی 74ویں جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب میں جمعۃ المبارک کے روز بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں چار نکات کو فوکس کیا جس کے پہلے نکتے میں موسمیاتی تبدیلی سے بڑھتے خطرات‘ دوسرے نکتے میں کرپشن اور منی لانڈرنگ سے پاکستان سمیت غریب ممالک پر مرتب ہونیوالے منقی اثرات‘ تیسرے نکتے میں نائن الیون کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے پھیلائے جانیوالے اسلامو فومیا کے تاثر کے مضمرات اور چوتھے اور سب سے اہم نکتے میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور اس پر دنیا کی بے حسی اور اقوام متحدہ کی بے عملی پر انہوں نے مفصل روشنی ڈالی اور استفسار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم رکوانے کیلئے اقوام متحدہ کا وعدہ کہاں گیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوائے اور مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ کرفیو ختم کرائے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی گیارہ قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور وہاں اضافی نفری بھجوائی۔ انہوں نے عالمی قیادتوں کو باور کرایا کہ بھارت نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کرفیو لگا کر محصور کر رکھا ہے‘ وہ کوئی دھمکی نہیں دے رہے بلکہ خبردار کررہے ہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ ہوئی تو اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ یہ اقوام متحدہ کیلئے آزمائش کا وقت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک اور پلوامہ ہو سکتا ہے جس کا الزام پاکستان پر لگایا جائیگا۔
وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے پرمغز خطاب میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کو بھرپور انداز میں اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پچپن روز سے 80 لاکھ افراد 9 لاکھ فوج کی موجودگی میں محصور ہیں اور آر ایس ایس کے رکن نریندر مودی کی حکومت ان سے جانوروں جیسا سلوک کررہی ہے۔ بھارت میں عملاً آر ایس ایس کی حکمرانی ہے جو ہٹلر اور مسولینی کے نظریے کی حامی ہے۔ مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا جس کے باعث مودی کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مودی حکومت ہندو برتری کے زعم میں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے۔ اگر برطانیہ میں 80 لاکھ جانوروں کو بھی محصور کیا جاتا تو وہاں اس کیخلاف خوفناک ردعمل ہوتا۔ اسی طرح اگر صرف آٹھ ہزار یہودی مظلوم کشمیریوں کی طرح محصور کئے جاتے تو اس پر پوری دنیا میں شور اٹھتا۔ آج کشمیر میں مودی سرکار جو مظالم کررہی ہے‘ وہ کشمیری عوام کو بندوق اٹھانے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جب کرفیو اٹھایا جائیگا اور لوگ باہر آئینگے جہاں 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں تو اس صورت میں خونریزی کا خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں سیاسی رہنمائوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں بھارت کے حامی سیاست دان بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے کہ کشمیر میں خونریزی کی نوبت آئے اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے کو خونریزی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے جس کیلئے 1945ء میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے اسلامو فوبیا کے پھیلائے گئے منفی تاثر پر بھی مفصل اور مدلل بات کی اور کہا کہ کچھ مغربی رہنمائوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جس کی وجہ سے اسلامو فوبیا نے جنم لیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بنیاد پرست اسلام یا دہشت گرد اسلام کچھ نہیں ہوتا‘ اسلام صرف ایک ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض سربراہان اسلامی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ماضی میں خودکش حملوں اور اسلام کو جوڑا گیا جبکہ نائن الیون سے پہلے زیادہ تر خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کئے جو ہندو تھے۔ مگر کسی نے ہندوازم کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا۔ مغربی لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مسلمانوں کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب اسلام کی توہین پر مسلمانوں کا ردعمل سامنے آتا ہے تو ہمیں انتہاء پسند کہہ دیا جاتا ہے۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے غلامی ختم کی اور اقلیتوں کو مساوی حقوق دیئے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے فوکس کردہ ہر نکتے پر بلاشبہ کھل کر‘ دوٹوک انداز میں مفصل اور مدلل بات کی جس کے باعث جنرل اسمبلی کا ہائوس متعدد بار انکی ستائش میں تالیوں سے گونجتا نظر آیا۔ انہوں نے بالخصوص جس ٹھوس انداز میں کشمیر کیس کی وکالت کی اسکی بنیاد پر انہوں نے کشمیریوں کے دل ہی نہیں جیتنے بلکہ ایک مدبر قومی لیڈر کی حیثیت سے بھی انکے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ہٹ دھرمی کے حوالے سے بھارت کی مودی سرکار کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کو بھی آئینہ دکھایا اور باور کرایا کہ اگر اس نمائندہ عالمی فورم نے کشمیر میں خونریزی رکوانے‘ کرفیو ختم کرانے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا تو اس نمائندہ ادارے کی حیثیت ختم ہو جائیگی اور دو ایٹمی ملکوں میں روایتی جنگ سے ہونیوالی تباہی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی رکن عالمی قیادتوں پر ہی عائد ہوگی۔ انہوں نے بجا طور پر باور کرایا کہ وہ جنگ کیخلاف ہیں‘ اس لئے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بھارت کی قیادت سے اسی تناظر میں رابطہ کیا۔ وہ بھارت کے ساتھ باہمی مسائل پر بات کرنے کو تیار تھے اور انہوں نے تو نریندر مودی سے بھی اس کیلئے کہا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے عالمی قیادتوں کو یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان میں کوئی شدت پسند تنظیم نہیں مگر بھارت ہم پر الزام لگارہا ہے۔ ہم نے حکومت میں آنے کے بعد شدت پسند گروپس کیخلاف کارروائی کی اور اب وہاں اس طرح کے کوئی گروپ نہیں۔ انہوں نے اسکے ثبوت کیلئے اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ اسی طرح انہوں نے بھارت کی مودی سرکار کے اصل مقاصد اور اسکے دہشت گردانہ عزائم کے پس منظر پر بھی مفصل روشنی ڈالی جس پر عالمی قیادتوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انہیں اپنی مالی مجبوریوں کے باعث تانی ہوئی مصلحتوں کی چادر اتار کر مودی سرکار کے مکروہ عزائم کے مضمرات کا جائزہ لینا اور اس پر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے فکرمند ہونا چاہیے۔ اگر عالمی برادری کا نمائندہ ادارہ اقوام متحدہ مودی سرکار کی جنونیت کے آگے بند باندھنے اور اسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے میں ناکام رہا تو بین المملکتی ہم آہنگی اور اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں میں جنگ و جدل رکوانے میں ناکامی کی بنیاد پر اس نمائندہ ادارے کی بلاشبہ کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی افادیت اور بقاء کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ اگر اس نمائندہ ادارے نے ماضی کی روایات کی طرح محض نشستند‘ گفتند‘ برخاستند کی پالیسی ہی اختیار کرنی ہے تو پھر انسانی معاشرے میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس والا فلسفہ ہی روبہ عمل ہوگا جو جنگل کے قانون کی عکاسی کریگا جس میں ماضی کی طرح ایک دوسرے سے متحارب ریاستیں جنگ و جدل کا راستہ اختیار کریں گی تو اس کا نتیجہ دنیا کی تباہی کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔ عمران خان نے عالمی قیادتوں کو پورے دلائل اور منطق کے ساتھ خبردار کردیا ہے اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے درپے بھارت کی مودی سرکار کا اصل مکروہ چہرہ بھی دکھا دیا ہے۔ اگر اسکے باوجود عالمی قیادتوں نے اپنے اپنے مفادات اور مصلحتوں کے تحت جنگ و جدل کے راستے پر اتری ہوئی مودی سرکار کے ہاتھ نہ روکے تو وہ اس کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لا کر چھوڑے گی۔
اس صورتحال میں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی دہری پالیسیوں پر نظرثانی کرنا چاہیے جنہوں نے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی بات کرتے ہوئے ہیوسٹن میں اپنا سارا وزن بھارت کی مودی سرکار کے پلڑے میں ڈال دیا اور اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس کیخلاف مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان کرکے انہوں نے خود کو بھارت کے ساتھ ایک فریق بنالیا۔ آج اگر امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے بھارت سے یہ تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں ختم کرے‘ گرفتار کئے گئے افراد کو رہا کرے اور کشمیر میں مقامی رہنمائوں سے سیاسی روابط بحال کرکے جلد انتخابات کرائے تو یہ پالیسی واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے باضابطہ طور پر کیوں اختیار نہیں کی جاسکتی۔ آج جبکہ پوری مقبوضہ وادی کو مودی سرکار کی جانب سے نوگوایریا بنادیا گیا ہے اور وہاں گزشتہ آٹھ ہفتوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ناممکنات میں شامل ہو گئی ہے تو جبر کے ان حالات کا لامحالہ وہی ردعمل سامنے آئیگا جس کی نشاندہی وزیراعظم عمران خان نے نمائندہ عالمی فورم پر عالمی قیادتوں کو خبردار کرتے ہوئے کی ہے۔ اس لئے چین‘ ترکی اور ملائشیا کی طرح امریکہ کو بھی وزیراعظم عمران خان کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور دنیا کو ممکنہ تباہی سے بچانا چاہیے۔ اگر اس حوالے سے جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بامقصد ثابت نہ ہوا تو اس کا نتیجہ لامحالہ دنیا کی تباہی کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔