کولکتہ (بی بی سی) اترپردیش کے بہرائچ ضلع کی رہنے والی ایک لڑکی کی شادی کا معاملہ اس لیے عدالت تک پہنچ گیا کیونکہ قانونی اعتبار سے لڑکی نابالغ ہے اور اسلامی شرعی قانون کے اعتبار سے اسے شادی کرنے اور اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ لکھنئو کی مقامی عدالت سے ہوتا ہوا یہ معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ لڑکی فی الحال اترپردیش کی ریاستی حکومت کے بچوں کے فلاحی مرکز میں رہ رہی ہے۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے یکم اکتوبر کی تاریخ دی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ سماعت کے دوران متاثرہ لڑکی کو بھی پیش کیا جائے۔ جسٹس این وی رمننا کی قیادت والی تین رکنی بینچ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ لڑکی کا پورا خیال رکھے اور سماعت کے دوران لڑکی کے علاوہ اس کے والد اور شوہر بھی حاضر ہوں۔جس لڑکے سے اس لڑکی کی شادی ہوئی ہے وہ بھی بہرائچ کا رہنے والا ہے۔ یہ لڑکا اپنے گاؤں کی ہی اپنی ذات کی اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس لڑکی کے والد کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر دی۔ سکھ شادی ایکٹ تو انڈیا میں موجود نہیں۔لڑکا مسلمان ہے تم کیس کردو، اس واقعے کے بعد لڑکی اس نوجوان کے پاس گئی اور اگلے ہی دن یعنی 22 جون کو دونوں نے نکاح کر لیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ کہا تھا کہ لڑکی قانونی اعتبار سے نابالغ ہے23 سالہ نوجوان کے مطابق ’ہمارے نکاح کرنے کے بعد لڑکی کے والد نے میرے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوا کرنے کی ایف آئی آر درج کرا دی۔ لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے درج کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لڑکی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر نہیں جانا چاہتی کیونکہ وہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔