سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے بھارتی مطالبہ‘ پاکستان کا شدید ردعمل
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مستقل نشست کیلئے بھارتی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حساس فیصلے کرنیوالے ادارے میں فسطائی ریاست کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک سخت بیان دیتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ ہمیں کب تک انتظار کرنا ہوگا؟کب تک بھارت کو اقوام متحدہ کے فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جائیگا؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھارتی مطالبے پر ردعمل دیا کہ دنیا سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی حیثیت سے کسی فاشسٹ ریاست کو نہیں دی جاسکتی۔ بھارت فاشسٹ ریاست ہے۔ سلامتی کونسل میں اسکی مستقل رکنیت قبول نہیں کرینگے۔ اسلام آباد بھی اقوام متحدہ میں اصلاحات چاہتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے 5 مستقل ممبران کی موجودہ فہرست میں کسی اور ریاست کو شامل کرکے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سلامتی کونسل میں غیر مستقل ممبران کی توسیع موجودہ 10 سے 20-21 تک چاہتے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے 193 ممبر ممالک کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان غیر مستقل ارکان میں اضافہ کرنے کی حمایت کرتا ہے کیونکہ اس سے اقوام متحدہ کے فیصلہ سازی کے عمل میں تمام بڑی، درمیانے اور چھوٹی ریاستوں خصوصا افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے شامل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے موجودہ پانچ مستقل ممبران اور غیر مستقل ممبران کے مابین توازن میں بھی اضافہ ہوگا۔
آج دنیا کی نظریں مسئلہ کشمیر پر ہیں۔ گزشتہ سال 5؍ اگست کو بھارت نے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے وہاں مسلم آبادی کا توازن بگاڑنے کی چال چلی‘ اس پر یکدم کشمیریوں کا شدید ردعمل سامنے آیا تو بھارت نے سخت پابندیوں کا حامل کرفیو نافذ کردیا جس کے باعث مقبوضہ وادی میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اس پر پوری دنیا میں تشویش پائی گئی۔ اقوام متحدہ نے بھی نوٹس لیا۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ سال بھی اس ایشو کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھرپور طریقے سے اٹھایا تھا۔ دو روز قبل بھی عمران خان نے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا بڑھی ہوئی بربریت و سفاکیت سے آگاہ کیا۔ مودی نے اپنی تقریر میں گزشتہ سال کی طرح اب بھی خاموشی اختیار کی۔ اقوام متحدہ کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ اپنی قراردادوں سے صریح انکار کرنیوالے بھارت سے جواب مانگنے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ کے رویے میں تبدیلی نہ آئی تو اس کا حشر بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہو گا۔
مودی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اصل معاملات و امور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول کیلئے کوشاں رہے۔ بھارت آج نہیں عرصہ سے سلامتی کونسل اور نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کی رکنیت کیلئے بے قرار ہے اور دونوں اداروں کی رکنیت اسکے مقدر میں نظر نہیں آتی۔ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک بھارت کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ کسی بھی ملک کے نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کا رکن بننے کیلئے کچھ لوازم اور شرائط ہیں‘بھارت ان پر پورا ہی نہیں اترتا۔ محض مودی کی خواہش اور کچھ ممالک کی پشت پناہی پر بھارت نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بن سکتا ہے نہ ہی سلامتی کونسل کی مستقل ممبرشپ حاصل کر سکتا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد پانچ ہے۔ اس میں اضافے کی مخالفت کرنیوالوں کی طرح حمایت کرنیوالے بھی موجود ہیں۔ بھارت مستقل ارکان کی صف میں شامل ہونے کا استحقاق دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کے زعم میں باور کراتا ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے جتنا بڑا ملک ہے‘ اتنا ہی فسطائیت میں بھی بڑا نام پیدا کرچکا ہے۔ جمہوریت صرف الیکشن کراکے اقتدار کی منتقلی ہی کا نام نہیں‘ انسانی حقوق کا تحفظ کسی بھی ریاست کا اولین فرض ہے جس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کوسوں دور ہے۔ 26 بھارتی ریاستوں میں ریاستی دہشت گردی کیخلاف آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی بحران بدترین شکل اختیار کرچکا ہے‘ جہاں چادر اور چار دیواری کا تحفظ بری طرح پامال کیا جا چکا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بھارت میں شرمناک سلوک کیخلاف عالمی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ 16 امریکی سینیٹرز نے دو روز قبل بھارت میں مذہبی آزادیوں پر ریاستی قدغنوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حکومت سے بھارت کیخلاف سخت نوٹس لینے اور بھارت کو اقلیتوں کیلئے خطرناک ترین ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان سینیٹرز میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں شامل ہیں۔ ایک طرف بھارت میں انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ اقلیتیں ریاستی تشدد اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ دوسری طرف بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا مطالبہ کررہا ہے۔ دنیا کے اس معتبر فورم کی رکنیت کا طلب گار ہے جس کی قراردادوں پر 72 سال سے عمل کرنے سے انکاری ہے۔ اسکے کسی پڑوسی ملک کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیںہیں۔ پاکستان کے بعد چین کے ساتھ بھی اسکے تنازعات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تنازعات موجود ہیں‘ نیپال اور بھوٹان تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھارت کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارت نہ صرف کسی بھی طور پر سلامتی کونسل کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ اسے تو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونا چاہیے جس کا مطالبہ پاکستان کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کی طرف سے عالمی ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت کی گئی ہے۔ 44 بھارتی بنک منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ بھارتی بنکوں نے 3201 غیر قانونی ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک ارب 53 کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی۔ منی لانڈرنگ میں بھارتی نوادرات کے سمگلر بھی ملوث ہیں اور انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں بھی منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوا ہے۔نیوکلیئر سپلائر گروپ اور سلامتی کونسل کی رکنیت کے خواستگار بھارت کو تو اصولی طور پر ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔