مہنگائی کے توڑ کا مجرب نسخہ

ویسے تو خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے مگر ڈھلتی عمر میں خود کو ادویات سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا سو میرا اور اہلیہ کا ان دنوں ادویات پر ہی گزارا چل رہا ہے۔ اور اب کیفیت ایسی بنی ہوئی ہے کہ…؎
قلب و جگر سے ہو کے نظر تک بھی آئے ہیں
پہلو سے اٹھتے اٹھتے حشر تک بھی آئے ہیں
ایک مرض کے علاج کی تجویز کردہ ادویات زیراستعمال آتی ہیں تو ساتھ ہی کسی دوسرے مرض کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ…؎
روز تھکتا ہوں میں کرکرکے مرمت اپنی
روز اک نقص نیا مجھ میں نکل آتا ہے 
سو ادویات سے بھی آشنائی ہے اور پھر انکے ناپید ہوتے اور بڑھتے نرخوں سے پنجہ آزمائی ہوتی رہتی ہے۔ ان دنوں شوگر‘ بلند اور کم فشارِ خون‘ لوز موشنز‘ سکن الرجی جیسے امراض تو انسانی صحت کا لازمی حصہ بن چکے ہیں اور روزمرہ کی ٹینشن انکے بنیادی اسباب ہیں۔ ڈھلتی عمر بذات خود ایک مرض بن جاتی ہے جس کیلئے مرحوم پرویز حمید میاں محمد سے منسوب کرکے اکثر یہ شعر سنایا کرتے تھے کہ…؎
کوئی کہندا اے پیڑ لکے دی‘ کوئی کہندا اے چُک 
سچی گل اے محمد بخشا‘ اندروں گئی اے مُک 
ہمارے شاعر حضرات بھی زندگی کے سفر میں یاس و امید کے مراحل سے گزرتے ہیں توحسبِ حال شاعری کے ذریعے اسکی منظر کشی کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے امیدو یاس کی منظرکشی اپنے اس شعر کے ذریعے کی کہ…؎
گزر رہا ہے عجب کش مکش میں دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے‘ زندگی کی آس نہیں
میر یہ سوچ کر کشمکش دیدہ و دل کی عکاسی کرتے ہیں کہ…؎
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے 
اور غالب یہ محسوس کرکے طمانیت کا اظہار کرتے ہیں کہ…؎
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا‘ برا نہ ہوا 
مگر شاعر کی یہ کیفیت تو مایوسی کی انتہاء کو جا پہنچی ہے کہ…؎
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ہاں تو جناب! 
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
اپنے ’’یار زندہ صحبت باقی‘‘ والے یار باش ریاض شاکر کی جواں مرگی نے تو دل کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ بے ثبات زندگی کی سفاکیوں کو اور بھی اجاگر کر دیا ہے اس لئے اب تو ’’بونس لائف‘‘ کو ادویات کے سہارے گھسیٹ کر ہی گزارا جاسکتا ہے اور ادویات کے ’’نرخِ بالاکن‘‘ نے تو زندگی کی گھسیٹا گھسیٹی بھی مشکل بنا دی ہے۔ ایسے ماحول میں زندگی سے گزر جانے والا غالب کا یہی نسخہ مجرب سمجھ کر استعمال کیا جائے تو زندگی کی کٹھنائیوں سے جلد جان چھوٹ سکتی ہے کہ…؎
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا‘ برا نہ ہوا
اس کیلئے سوشل میڈیا پر چلنے والا یہ ’’اشتہار‘‘ بھی زادِراہ بنالیا جائے تو زندگی کے جھنجٹوںسے چھٹکارے میں مزید آسانی ہو جائیگی۔ اس ’’اشتہار‘‘ میں ہم راندۂ درگاہ طبقات کو ہی یہ صائب مشورہ دیا گیا ہے کہ ’’تمام دوائیں غریبوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘ طبیعت زیادہ خراب ہو تو یاد رکھیں کہ سکون صرف قبر میں ہے۔‘‘ 
اور جناب! ’’نرخِ بالاکن‘‘ کے جواز نے تو دل باغ باغ کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت غالباً ڈاکٹر فیصل سلطان میڈیا کے روبرو آکر کتنے اعتماد کے ساتھ فرما رہے تھے کہ ادویات کے غیرمعیاری ہونے اور مارکیٹ میں ناپید ہونے کا توڑ ادویات کے نرخ بڑھا کر ہی کیا جاسکتا تھا۔ بھئی یہ تو بہت مجرب نسخہ ہے جو گزشتہ دو سال میں اب تک پانچ بار آزمایا جاچکا ہے۔ سو شوگر کی جس دوائی کا پیکٹ دو سال قبل 75 روپے میں دستیاب تھا‘ وہ اب تین سو روپے تک جا پہنچا ہے اور اس دوائی کے معیاری ہونے کی چھان پھٹک مریض کی صحت کا اندازہ لگا کر بخوبی کی جاسکتی ہے۔ ارے یہ تو ’’مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک‘ بے اثر‘‘ والا معاملہ ہے۔ اور پھر تاثیر گورننس یہی ہے کہ مارکیٹ میں جو چیز نایاب ہو جائے اسکے نرخ بڑھا کر عوام کیخلاف ایسی سازشیں کرنیوالے بدطینتوں کا منہ توڑ دیا جائے۔ 
خدا لگتی کۂیے‘ اس گورننس کی تاثیر اس عہد خوش خصال میں بڑھتی نہیں جا رہی؟ فلور ملز والوں نے پہلے آٹے کا معیار گرایا اور پھر انسانی صحت کو رگڑے دینے والا یہ آٹا بھی مارکیٹ سے غائب کر دیا۔ عوام آٹے کی اس کمیابی پر مضطرب ہوئے تو اسکے نرخ بڑھا کر یہ غیرمعیاری اور مہنگا آٹا خریدنے پر عوام کو مجبور کر دیا۔ گندم کی بمپر فصل ہوئی تو تاجر طبقہ کو سستی گندم خرید کر مہنگے داموں بیرون ملک برآمد کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس طرح گندم کی ملک میں قلت پیدا ہو گئی تو اسے سستے داموں مارکیٹ میں لانے کا جواز ہی ختم ہو گیا۔ سو عوام بھی مہنگے داموں گندم خریدنے پر آمادہ ہو گئے مگر ’’ہم خرما‘ ہم ثواب‘‘ والوں کے اس منافع خوری پر بھی جی نہ بھرے تو انہیں اپنی ہی بھجوائی گئی گندم درآمد کرنے کی اجازت دیکر انہیں مزید منافع کی سہولت فراہم کر دی گئی۔ لگے ہاتھوں شوگر ملز مالکان نے بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ چینی مارکیٹ میں ناپید کی اور پھر ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ کا تصور باندھ کر چینی کے نرخوں کے جستیں بھرنے کا اہتمام کرکے عوام کیلئے چینی کی قلت کا عذاب ختم کر دیا۔ 
حکومت کو عالمی مارکیٹ کے حساب سے پٹرولیم نرخوں میں کمی کا کریڈٹ لینے کا شوق چرایا تو پٹرولیم مافیا نے پٹرول کی رسد روک کر حساب برابر کر دیا چنانچہ حکومتی گورننس کا یہی تقاضا تھا کہ پٹرول کے کم کئے گئے نرخ واپس لے کر مافیا کا گٹھ جوڑ توڑا جائے۔ سو حکومت اس میں بھی ’’سرخرو‘‘ ہو گئی اور جناب! میڈیسن والا مافیا تو حکومت کو باربار اپنی گورننس کا یہی طریق کار اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہے اور حکومت بھی پرعزم ہے کہ وہ اپنی گورننس کے اس طریق کار پر کوئی حرف نہیں آنے دیگی۔ ایسے حالات سے گھبرائے عوام کو نوید ہو کہ حکومت انہیں زہر کھا کر مرنے نہیں دیگی کیونکہ اب زہر بھی مارکیٹ میں ناپید ہو کر اتنا مہنگا ہو جائیگا کہ اسے خریدتے وقت عوام کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائینگے‘ تو جناب! اس گورننس میں راندۂ درگاہ عوام کی حالت دیکھنی ہو تو اس شعر کا ورد کرلیجئے کہ…؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے 
آپ یہ نسخہ آزمائیں اور اس گورننس میں آسودگی پائیں‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ 

ای پیپر دی نیشن