واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) افغانستان سے امریکہ سمیت نیٹو اتحادی افواج کے انخلاء کے معاملے پر امریکی وزیر دفاع اور کمانڈر سینٹ کام سمیت اعلیٰ عسکری حام سینٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ اندازہ نہیں تھا سابق افغان فوج اتنی جلدی ہتھیار ڈال دے گی۔ اگست کی مقررہ تاریخ کے بعد افغانستان میں رہنے سے خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ ایک سال میں القاعدہ کے امریکہ پر حملے کا خدشہ ہے۔ جوائنٹ چیف چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا کہ افغان جنگ کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوا جیسے ہم چاہتے تھے۔ ٹرمپ اور جوبائیڈن کو خبر دار کیا تھا کہ اچانک انخلاء سے افغان حکومت گر سکتی ہے۔ سابق افغان حکومت کی کرپشن‘ قائدانہ صلاحیت کے فقدان کا ادراک نہ کر سکے۔ امریکی جنرل مارک ملی نے کہا کہ چینی ہم منصب سے رابطہ کرکے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔ افغانستان سے جس طرح انخلاء ہوا اس سے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ پہلے ہی کہا تھا کہ جلد بازی میں نکل گئے تو طالبان حکومت میں آ سکتے ہیں۔ جنرل مارک ملی نے کہا یقین ہے صدر ٹرمپ کا چین پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اس وقت میرا کام تنائو کم کرنا تھا۔ میرا چین کو پیغام تھا پرسکون‘ مستحکم رہیں ہم آپ پر حملہ کرنے والے نہیں۔ اعلیٰ سطح پر چین کی فوج سے رابطہ امریکی سلامتی کیلئے اہم تھا۔ رابطوں کا مقصد جوہری ہتھیاروں سے لیس عظیم طاقتوں کے درمیان جنگ روکنا تھا۔ میں خود کو چین آف کمانڈ میں داخل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ ملی نے 30 اکتوبر 2020ء اور 8 جنوری کو چینی ہم منصب کو فون کالز کی تھیں۔ جنرل مکنزی نے کہا ہے کہ طالبان کے زیر اثر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ افغانستان تک فضائی اور زمینی رسائی پاکستان کے ذریعے ہوتی رہی۔ افغانستان تک رسائی سے متعلق پاکستان کے ساتھ بات چیت رہی۔ مستقبل میں طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔ جنرل ملی نے کہا کہ دوحا معاہدے کے تحت طے شدہ شرائط میں طالبان نے صرف ایک شرط پوری کی جو اتحادی افواج پر حملہ نہ کرنے کی تھی۔ جنرل آسٹن نے کہا کہ افغانستان میں مزید کسی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں۔