بلاول زرداری ہنگامی دورے پر امریکہ چلے گئے
یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ اچانک دورے کیا ہوتے ہیں۔ امریکہ جانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ ویزے اور ٹکٹ میں وقت لگتا ہے۔ بلاول کو ویسے تو حق ہے جب چاہیں امریکہ جائیں مگر ان آنیوں جانیوں کے پیچھے کوئی وجہ تو ضرور ہو گی۔ جس طرح وہ اچانک ان چند ماہ میں امریکہ کے پے درپے دورے کر چکے ہیں اس سے ا ن کے چاہنے والوں کو تشویش ہو رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی والوں کو امریکہ راس نہیں آتا۔ بھٹو صاحب کو دیکھ لیں امریکہ لے ڈوبا۔ پھر بے نظیر بھی جب امریکہ کے قریب ہونے لگی تو حبیب جالب مرحوم نے کیا خوب کہا تھا :
ناجا امریکہ نال کڑے
ساہنوں تیرا بڑا خیال کڑے
مگر ان کے دور میں امریکہ مردہ باد والی پیپلز پارٹی ختم ہو گئی اور امریکہ زندہ باد کے بینر تلے پلنے والی پارٹی وجود میں آئی جسے ابھی تک ووٹروں نے دل سے قبول نہیں کیا۔
اب بلاول کو ماضی سے سبق لیتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ امریکہ کسی کا یار نہیں وہ اپنے مفادات کا یار ہے۔ جہاں مفاد سامنے آیا تو گدھے کو بھی باپ بنا لیا جب مفاد ختم ہوا تو اچھے بھلے دوستوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اب بلاول جیسے نوآموز سیاستدان کو تو امریکی شاطر دماغ آسانی سے شکار بنا لیں گے۔ ویسے بھی ان کی تعلیم و تربیت گوروں کے دیس میں ہی ہوئی ہے۔ ان کے ا ندر شاید وہ باغیانہ سوچ اُبھر نہیں سکتی جس نے ان کے نانا بھٹو کو پاکستانی عوام کی آنکھ کا تارا بنا دیا تھا۔ اب عوام بھی تو بدل چکے ہیں۔ بغاوت اور انقلاب کی باتیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ لے دے کر ایک تبدیلی کی راہ دیکھی تھی وہ بھی کھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
یوٹیلٹی سٹورز پر سفید چنے کی قیمت میں 40 روپے فی کلو اضافہ
اب جو لوگ یوٹیلٹی سٹورز سے سامان خریدتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں کیسا مال ملتا ہے۔ اس کے باوجود غریب لوگ وہاں سے سامان خریدنے پر مجبور ہیں۔ دالیں ، چاول ، آٹا ، گھی ، تیل سب ناقص ہوتا ہے۔ اب ا س ستم پر بالائے ستم یوٹیلٹی سٹورز پر بھی مہنگائی نے وار کرنا شروع کر دیا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں کہ اس کی قیمت بڑھی نہ ہو۔ اب ایک دن میں سفید چنا 120 سے 160 روپے تک جا پہنچا ہے۔ ایک کلو کا پیکٹ خریدیں تو اس میں سے بھی آدھا کلوچنا وہ ہوتا ہے جو کھوکھلا ہوتا ہے۔ اسے کیڑے کھا کر خالی کر چکے ہوتے ہیں۔ ا یہی دالوں کا بھی حال ہے۔ پرانا بدبودار ، کیڑوں کا کھایا ہوا سٹاک یوٹیلٹی سٹورز پر بکتاہے۔ پتھر اور کچرا الگ اس میں شامل ہوتا ہے۔ آٹا تو یوں لگتا ہے جیسے باسی روٹی کے ٹکڑوں کو پیش کر دوبارہ بنایا گیا ہے۔ بد ذائقہ اور اکڑی ہوئی روٹی کھانے کے لائق نہیں ہوتی۔ یہی حال مرچ‘ مصالحوں‘ کوکنگ آئل اور گھی کا ہے جو دو نمبر وہاں ملتے ہیں اوپر سے قیمتیں روزبروز بڑھائی جا رہی ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز غریب عوام کے فائدے کے لئے بنے تھے مگر انہیں بھی حکومت نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا کہ وہاں کیا بک رہا ہے۔ اشیا کا معیار کیسا ہے۔ شاید حکومت کو اس طرف توجہ دینے سے زیادہ قیمتیں بڑھانے پر توجہ ہوتی ہے اور عوام کی تو
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
والی حالت ہو چکی ہے۔ ان کی تو سدھ بدھ کھو چکی ہے۔
٭٭٭٭٭
تھپڑ کے بعد ایک اور تحفہ، شہری نے فرانسیسی صدر کو انڈہ دے مارا
اسلامو فوبیا میں مبتلا ہونے کے بعد لگتا ہے فرانسیسی صدر پر ابتلا کا جو دور آیا ہے۔ اس میں انہیں نجانے اور کیا کیا سہنا پڑے گا۔ کبھی کوئی دل جلا انہیں تھپڑ جڑ دیتا ہے۔ کبھی کوئی ان پر آوازے کستا ہے۔ اب کسی دل جلے نے جنوبی شہر لیون کے دورے کے موقع پر ان کو انڈہ دے مارا جو سیدھا ان کے کندھے پر جا لگا۔ انڈے کے نشانے پر لگنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈہ مارنے والا اناڑی نہیں کوئی ماہر نشانہ باز تھا۔ ورنہ ایسے موقعوں پر عموماً نشانہ چوک جاتا ہے۔ حیرت کی بات البتہ یہ ہے کہ انڈہ ٹوٹا نہیں ورنہ شرمندگی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی صدر کے کپڑے بھی خراب ہو جاتے۔ اب کہیں فرانس کے صدرمیں جہاں بھی دورے پر خطاب کرنے جائیں یا انتظامیہ کو وہاں موجود ہر شخص کی تلاشی لینا پڑے کہ ان کی جیب میں انڈہ تو نہیں۔ یا پھر انہیں اتنے فاصلے پر کھڑا کیا جائے گاجہاں سے کوئی سر پھرا تھپڑ نہ مار سکے اور نہ ہی انڈہ ۔ واضح رہے کہ تھپڑ اور انڈہ مارنے کے ان واقعات کا اسلامو فوبیا سے کوئی تعلق نہیں یہ دونوں واقعات خالصتاً فرانس کے اندرونی سیاسی معاملات یا حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں۔ ہاں البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی باتوں سے کئی چہروں پر ضرور ایک مسکراہٹ سی پھیل جاتی ہے۔ شاید وہ اسے قدرت کا ایک حسین انتقام سمجھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں نکاح خواں کے لیے تعلیم ایم اے مقرر‘ رجسٹریشن بھی ہو گی
آج کل نکاح صرف ایجاب و قبول کا نام نہیں موجودہ دور میں نکاح نامہ کے تمام کالموں کو پر کرنا ضروری ہے۔ حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔ اس طرح کم از کم نکاح پڑھانے والے کو یہ تو علم ہو گا کہ نکاح کے فارم میں کیا کیا درج ہے اور کون کون سے کالم لازمی پُر کرنے ہیں۔ اس طرح بعدازاں کسی ناچاقی کی صورت میں پیش آنے والی بدترین صورتحال سے بھی نجات کی راہ نکل سکتی ہے۔ اب اس پر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے نیم خواندہ نکاح خواہ کیا کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں تو نابینا افراد اپنے مفادات پر کوئی حرف برداشت نہیں کرتے اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ نیم نکاح خواں اعلیٰ تعلیم کی ضرب کیسے برداشت کریں گے۔ نکاح ایک مذہبی اور سماجی بندھن کا مضبوط معاہدہ ہے۔ یہ جتنا مکمل اور بہتر ہو گا اتنا ہی دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نکاح خواں صرف نام ولدیت درج کر کے حق مہر لکھ کر جیب خرچ کے اندراج کو ہی مکمل سمجھتے ہیں باقی سب اہم کالم خالی چھوڑ کر ان پر کراس لگا دیتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ دونوں فریقین کو ترتیب وار تمام کالم پڑھ کر ان سے اس بارے میں پوچھ لیا جائے تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ایک پڑھا لکھا نکاح خواں تو ایسا کر سکتا ہے ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ نکاح خواں ایسا نہیں کر سکتا ہے۔ حالانکہ نکاح نامہ پُر کرنا اور دونوں فریقوں سے اس کی رضا مندی لینا اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ اب پنجاب حکومت کے اس فیصلہ سے امید ہے کہ نکاح کے دوران رہ جانی والی چھوٹی موٹی قانونی خامیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
٭٭٭٭