پاکستانی ادبی صحافت کے 75برس  

اکادمی ادبیات پاکستان نے ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے حوالے سے ’’پاکستانی ادبی صحافت کے 75سال‘‘ کے حوالے سے ایک بہت زبردست تقریب منعقد کی۔چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اس کامیاب تقریب کے لیے بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔تقریب میں محمود  شام ،نذیر لغاری،زاہدہ حنا اور توصیف احمد خان مجلس صدارت میں تھے جبکہ وسعت اللہ خان ،مظہر عباس اور منصورآفاق صاحبان مہمانان خاص تھے۔ ان کے علاوہ فریدہ حفیظ صاحبہ ،مظہر برلاس ،ڈاکٹر صغریٰ صدف، عامر ہاشم خاکوانی اور سعدیہ قریشی کے ساتھ ساتھ ہر خطے ہر زبان کی صحافت پر بات کرنے والے بڑے بڑے اہل قلم شریک تھے ۔تقریب کی نظامت ڈاکٹر سعدیہ بہت خوب کی ۔اس موقع پر جو گزارشات راقم نے پیش کیں وہ آپ کی خدمت میں بھی رکھے دیتے ہیں۔ 
بہت شکریہ تمام لوگوں کا اور مجلس صدارت کا‘ مہمانان خاص‘ اور مہمانان اعزاز ان تمام لوگوں کا شکریہ‘ مجھے یہ کہتے ہوئے عجیب سا لگا رہا ہے کہ ہم کم ازکم اس تقریب کو مشاعرے کی روایت پر رکھتے تو بہتر ہوتا کہ بعض شاعر اپنی شاعری سنا کر چلے گئے تو وہ کچھ اور لوگوںکا کلام بھی سن لیتے تو اچھا ہوتا اور جس طرح سے بہت ساری چیزیں ہم دہرا رہے ہیں تو اس سے مجھے احساس یہ ہوا کہ جس طرح ہم بچپن میں کھیلنے جاتے تھے تو باری نہیں آرہی ہوتی تھی تو ہم یک دم کہا کرتے تھے کہ یار میں امی کو بتا کر نہیں آیا یہ کہہ کر آج یہاں سے نکلنا چاہ رہا تھا ۔بہرحال بہت شکریہ ڈاکٹر یوسف خشک صاحب آپ بہت خوش گمان آدمی ہیں جو اگلے75 یا 150 سال کی بات کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ 75 سال بعد ہمارا ادب اس پوزیشن پرہوگا جس میں آج ہے‘ جس پوزیشن میں ہماری صحافت ہے ایسا بالکل نہیں۔ میں بالکل شیئر کرنا چاہوں گا جو مظہرعباس صاحب کی مایوسی ہے، محمود شام صاحب کی، عامر ہاشم خاکوانی کی ،تقریباً انہیں لائنز پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جو باتیں انہوں نے کی ہیں،ان کو دہرانا کا فائدہ نہیں ہے لیکن خیرسیف الدین سیف جوکہہ گئے کہ کوئی بات ‘ نئی بات نہیں، تو میں اس بات کا فائدہ اٹھاتاہوں ابھی افتخار گیلانی صاحب نے کہا کہ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ معاف کیجئے گا صاحبان! یہ خوش فہمی میں نے بڑا عرصہ ہوا چھوڑ دی کہ ہمارا کوئی تعلق ادب سے ہے۔ پہلے ہم کہ ڈائجسٹ کی حیثیت ہی طے نہیں کر پائے تھے کہ اب ہم اسکے بعد کالم کے مقام کو ادب میں رکھنے کی بات شروع کر بیٹھے ہیں۔ کبھی کالم پر یہ بات نہیں ہوئی کہ یہ ادب کا حصہ ہے یا نہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جو ادب برائے ادب اورادب برائے زندگی کی ایک دیرینہ گفتگو ہے‘ اس گفتگو کو ایک نئے پیرائے میں کرکے کیا ہم حقیقی مسائل کو سمجھ پانے کی کوشش کر رہے ہیں یا انکی شناخت کر پارہے ہیں کیونکہ جب تک ہم مسئلے کی شناخت نہیں کریں گے اس وقت تک ہم کوئی حل تلاش نہیں کر پائیں گے ۔ میں جن لوگوں کو دیکھ کر صحافت کی طرف آیا تھا وہ اردو بھی جانتے تھے اور انگریزی بھی ‘عربی بھی جانتے تھے ‘ فارسی بھی ‘ شاعر بھی تھے ‘ ادیب بھی ‘ خطیب بھی تھے اور کالم نگار بھی تھے‘ اتنی قدر آور شخصیات تھیں کہ حقیقتاً ان کو دیکھنے کے لیے اگر سر اٹھائیں تو آپ کے سر سے ٹوپی گر جاتی۔ لیکن ابھی میں جب کہیں کسی دوست کا لکھا ہوا چینی کا قحط الرجال پڑھتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں خود کشی کرلوں کیونکہ اسکے بعد میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں رہتا ۔ چراغ حسن حسرت ہوں‘ عبدالمجید سالک ہوں ‘ شورش کاشمیری ہوں ‘ مولانا ظفر علی خان ہوں‘ یہ تمام وہ لوگ تھے کہ جن کو دیکھ کر‘ جن کو پڑھ کرہم اس طرف آئے تھے۔ چونکہ ہم آنیوالوں کے لیے کوئی اس طرح کا رول ماڈل چھوڑ کر نہیں جارہے جو قابل تقلید ہو۔ ہماری زبان اور معاف کیجئے گا معاشرہ جس طرح سے تنزلی کا شکار ہے۔ صحافت بھی اسی طرح تنزلی کا شکار ہے اور ادب بھی اسی طرح انحطاط کا شکار ہے اور رہا کالم‘ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کسی حد تک ہم اس کو ادب کا حصہ ماننے یا نا ماننے کی بحث کرسکتے ہیں۔ یہاں پر کسی نے ابن انشا کا ذکر کیا تو ابن انشا جیسی شستہ زبان اورجس میں برجستگی انتہا کی ہے‘ کو اس فہرست سے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک لائن انکی کہ کہیں پر وہ اپنے گھر کا ایڈریس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں میٹروپولٹین کارپوریشن کو یہ انتباہ کرنا چاہتا ہوںکہ وہ پاپوش نگر کی فلاں گلی کی فلاں نکڑسے وہ کوڑا کرکٹ کا جو ڈھیر ہے وہ بالکل نہ ہٹائیں کیونکہ وہ اگر انہوں نے ہٹا دیا تو پھر میں باہر سے آنے والوں کو اپنے گھر کی نشانی کیا بتاؤں گا؟
 رہی تخلیق اور تصورات کی خوبی تواس کا ذکر تو بہت بعد میں ہے جب تک آپکے پاس مناسب ذخیرہ الفاظ نہیں ہے جو کہ بڑی بنیادی چیز ہے تو باقی کا م بہت مشکل ہے۔ میری گزارش ہے کہ ہمیں لوگوں کو پڑھنے کی طرف لانا ہے اور سننے کی اہمیت نئے آنیوالوں کو بتانی ہے کہ سننا بھی ایک آرٹ ہے‘ سننا بھی ایک کام ہے۔ اگر آپ دوسروں کو سنیں گے تو اسکے بعد آپ کے اندر بھی بہت سی چیزیں ہوں گی یا سامنے آئیں گی جن کو نکھارا جاسکے گا ۔ 
میں اتنا کہوں گا کہ لغاری صاحب نے کہا کہ سندباد جہازی یعنی چراغ حسن حسرت وہ شاعر نہیں تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اردو کا پہلا ماہیا چراغ حسن حسرت نے لکھا تھا ’’باغوں میں پڑے جھولے ‘‘ آپ تمام لوگوں سے یہ چاہتا ہوں کہ ہم تمام لوگ مل کر یہ کہیں کہ نئے آنے والے اور جو بعد میں صحافت میں آئیں گے ان کے لیے کوئی راستہ تجویز کیا جائے چونکہ یہاں ہر آدمی‘ اگر ہم سیٹزن جرنلزم کو مان لیں تو اسکے بعد آپ نے تو ایک’’ فلڈ گیٹ‘‘ کھول دیا ہے۔ 
 یہ صحافی کون ہیں؟ جو آجکل آرہے ہیں یہ کدھر سے آرہے ہیں؟ ان کا ’’پاتھ وے‘‘ کیا ہے؟ ان کا نہ کوئی پڑھنے سے تعلق ہے اور نہ لکھنے سے بہت سارے لوگ لکھنے پر یقین رکھتے ہیں یا سکرین پر آنے پریقین رکھتے ہیں۔ آپ لوگ جو سارے بڑے لوگ یہاں موجود ہیں‘ اس بات کو طے کرنا ہے کہ یہ کون طے کرے گا کہ صحافی کس طرح سے آئے گا ؟کیسے کوئی آدمی صحافی کہلا سکتا ہے یا ایسے کوئی صحافی نہیں کہلا سکتا۔ معذرت کے ساتھ ہم نے بات کی احمد ندیم قاسمی‘ عطاء اللہ قاسمی صاحب کی تو ادیب کو، میں محسوس کرتا ہوں کہ جہاں سوٹ کرتا ہے کہ بطور صحافی وہ اپنے آپ کو پیش کرے تو وہ صحافی کا لبادہ بھی اوڑھ لیتا ہے ‘صحافی کو جہاں سوٹ کرتا ہے وہ ادیب کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ ہم اپنی ذات کے خول سے باہر جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کالم نگاروں کی باقاعدہ دفیں بنی ہوئی ہیں جیسے کسی زمانے پہلوانوں کی ہوا کرتی تھیں صرف عنوان اور کالم نگار کا نام پڑھنے سے ہی آپ پورا مضمون جان لیتے ہیں۔ہمیں بہت ساری چیزوں کو دیکھنا ہے‘ اپنی عادات و اطوار پر غور کرنا ہے‘ اپنی ادائوں پر غور کرنا ہے کہ اس کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ مجھے نظر نہیں آرہا کہ آگے ہم کس طرح سے جائیں گے ؟ آپ تمام لوگوں کا سننے کا توجہ دینے کا بہت شکریہ ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن