لیکس ہنگامہ اور ایک لوھار کی

آڈیو لیک کا ہنگامہ جاری ہے اور اس میں بڑا اور اصل دھماکہ اس آڈیو لیک نے کیا ہے جس میں عمران خان اپنے سیکرٹری (اور پی ٹی آئی کے سیاسی تھنک ٹینک) اعظم خان سے مصروف گفتگو ہیں اور ان کی پشتو لہجے والی اردو اور انگریزی میں طویل تقریر سن کر انہیں بتاتے ہیں کہ سفارتی مراسلے کو اب غیر ملکی سازش بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہم نے ا س سے کھیلنا ہے، امریکہ کا نام نہیں لینا۔ اعظم خان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ ”سازش“ کے بیانئے میں اہم کردار انہی کا تھا۔ 
یہ لیک سو سنار کی کے مقابلے میں ایک لوھار کی ثابت ہوئی ہے اور ابھی مزید کیا کیا ثابت ہونا ہے ، ابھی سے کیا بتائیں
دامنِ ”خان“، خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا 
___________
بہرحال ہنگامہ جاری ہے۔ سنجیدہ بات کم، طنزیہ مزاحیہ تبصرے زیادہ ہو رہے ہیں۔ بیچ میں پھکڑ پن بھی آ کودا ہے۔ فواد چودھری صاحب ہی کو لے لیجئے۔ فرمایا، الیکشن کمشن آڈیو لیکس کا نوٹس لے اور شہباز شریف کو نااہل قرار دے۔ شہباز شریف اکیلے ہی کو کیوں، سارے شریف خاندان کو کیوں نہیں۔ فواد چودھری صاحب نے صرف ”نااہل“ کا لفظ استعمال کیا ہے، تاحیات نااہل کہنا چاہیے تھا۔ 
ویسے ا لیکشن کمشن کا آڈیو لیکس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے، اور وہ، کس قانون کے تحت اس پر کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے؟۔ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ شاید بلکہ یقینا ”جسٹس“ اعتزاز احسن ہی کوئی ”ورڈکٹ“ دے سکتے ہیں۔ انہیں جسٹس غلطی سے نہیں لکھا، شریف خاندان پر الزامات کے حوالے سے انہی کے ”فیصلے“ نافذ ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر وہ ”جسٹس“ ہیں، بھلے سے انورٹڈ کاماز کے اندر ہی سہی۔ 
___________
فواد چودھری اصل میں سخت غصے کے عالم میں ہیں۔ پارٹی کے اندر ان کی ”رٹ“ پہلے جیسی نہیں رہی۔ ان کے دیرینہ حریف حامد خاں پھر سے ان ہو گئے ہیں اور انہوں نے فواد چودھری کو اگر ”آڈٹ“ نہیں کیا تو ”اِن“ بھی نہیں رہنے دیا۔ اس کی وجہ سے وہ غصے میں ہیں اور غصہ عمران خان پر نکالنے سے تو رہے، لے دے کے حکومت پر ہی اتار سکتے ہیں۔ بہرحال، انہیں پھر سے ”اِن“ ہونے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ عمران خان کی ”گڈ بک“ اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ لوگ اس میں رہتے ہیں، پھر نہیں رہتے اور ایک دن پھر رہنے لگتے ہیں۔ 
___________
گڈ بک سے، سنا ہے شیخ رشید بھی ان دنوں خارج ہیں۔ کئی باخبروں کی متفقہ خبر ہے کہ آجکل عمران خان ا نہیں کچھ خاص منہ نہیں لگاتے بلکہ بعض کا کہنا ہے کہ سرے سے منہ ہی نہیں لگاتے۔ کچھ تحریک انصاف کے اندر بعض لوگوں نے بھی لگائی بجھائی کی ہے اور کچھ ماجرا یوں ہے کہ جب سے گیٹ نمبر چار والوں نے انہیں ”جبری ریٹائر“ کیا ہے ، تب سے قسمت کا ستارا بھی مائل بہ غروب ہے۔ ان دنوں لال حویلی سے رات گئے کوئی ٹھمری گایا کرتا ہے
میرا پیا موسے بولت ناھیں۔
بہرحال، فواد چودھری مایوس نہیں ہوئے، شیخ صاحب بھی مایوس نہ ہوں۔ کل بھی ایک چینل پر فرما رہے تھے (بصد حسرت و یاس) کہ پانچ چھ مہینے ہو گئے، میرا ”ان“ سے کوئی رابطہ نہیں۔ یہ بات نہیں بتانی چاہیے تھی۔ 
___________
آڈیو لیکس پر سنجیدہ بلکہ ازحد سنجیدہ بات وزیر اعظم شہباز شریف نے کہی۔ پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم ہاﺅس میں اس طرح ریکارڈنگ اور بگنگ کی خبریں باہر جائیں گی تو باہر سے کون پھر وزیراعظم ہاﺅس آ ئے گا۔ یعنی اسے بھی ڈر ہو گا کہ اس کی وزیر اعظم ہاﺅس میں نقل و حرکت اور کہا سنا سب ریکارڈ ہو گا۔ 
بڑا سنجیدہ اور تشویش ناک نکتہ ہے لیکن شہباز شریف نے کس طرف اشارہ کیا ہے؟۔ اس سوال کا جواب اگر کوئی دے سکتا ہے تو وہ خود عمران خان ہیں جنہوں نے ایک سے ز یادہ بار یہ بتایا ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ اگلی آڈیو کس کی آئے گی اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اس میں کیا کچھ کہا گیا ہے۔ 
مطلب نیٹ ورک ان کی دسترس میں ہے (یا وہ نیٹ ورک کی دسترس میں ہیں؟‘۔ حکوت نے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ خان صاحب کے اس مذکورہ بالا انکشاف کے بعد اس کی ضرورت نہیں تھی۔ خان صاحب کو بلا کر نیٹ ورک تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ کہاں بلا کر، یہ مت پوچھئے۔ 
ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا گیا ہے (یا الزام لگایا گیا ہے) کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی بی کو کمزور کیا اور اس کی صلاحیتیں ختم کر کے رکھ دیں۔ کیوں؟۔ اس لیے کہ ”نیٹ ورک“ آسانی سے اپنا کام کر سکے جو اس نے کیا۔ خان صاحب کی ”دور اندیشی“ کی داد دینی چاہیے۔ 
___________
عمران خان نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار چور اور ڈاکو ہیں۔ عدالتوں نے اس کا راستہ نہیں روکا، میں روک کر دکھاﺅں گا۔ 
کس عدالت نے اسحاق ڈار کو چور اور ڈاکو قرار دیا ہے؟۔ لندن میں انٹرپول اور برطانوی اداروں نے انہیں منی لانڈرنگ کے تمام الزامات سے بری قرار دیا اور لندن وہ جگہ ہے جس کی عمران خان ”مثالیت“ کے حوالے سے مثالیں دیا کرتے ہیں۔ 
مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی بڑی شہرت ہوئی تھی۔ اس میں انہوں نے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا لیکن یہ بیان عدالت میں نہیں، پولیس کے روبرو دیا گیا تھا۔ پولیس کو دئیے گئے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی، یہ بات خود عمران خان نے کہی تھی، شہباز گل والے ماجرے میں۔ 
خان صاحب اسحاق ڈار کا راستہ کیسے روکیں گے؟۔ اس سوال کا جواب زرتاج گل صاحبہ ہی دے سکتی ہیں جن کا بتانا ہے کہ خان صاحب دیوار کے اس پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ 
ویسے ڈار صاحب نے نہ صرف یہ کہ حلف اٹھا لیا ہے بلکہ کام بھی شروع کر دیا ہے۔ خان صاحب کا ان کا راستہ رونے کا اعلان 25 مئی والے دھرنے جیسا ہی لگتا ہے۔ تب خان صاحب نے فرمایا تھا کہ 25 کو اسلام آباد جاﺅں گا اور وہاں سے حکومت کو گھر بھیج کر ہی لوٹوں گا۔ لیکن وہ تو ہوا کے جھونکے کی طرح آئے اور ہوا کے جھونکے ہی کی طرح چلے گئے اور ”خوشخبری“ کے منتظر انتظار کرتے ہی رہ گئے۔ 
___________
سیاستدان ”زمینی حقائق“ کو سمجھ لیا کرتے ہیں اور پھر ”سمجھوتہ“ بھی کر لیا کرتے ہیں۔ خان صاحب کو بھی اب چھ مہینے بعد جا کر زمینی حقائق کی سمجھ آ گئی ہے اور وہ سمجھوتہ بھی کر چکے ہیں لیکن رسید نہیں دے رہے اور آخری کال کی دھمکی مسلسل دئیے چلے جا رہے ہیں۔ آخری کال کا نام بدل کر انہوں نے ”آخری واردات“ رکھ دیا ہے۔ کرک کے جلسے میں انہوں نے فرمایا ، یہ میری آخری واردات ہو گی، خان صاحب، وہ واردات، واردات ہی کیا جس کا اعلان پہلے سے کر دیا جائے؟ 
___________

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...