ملک میں اس وقت ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ اس کی مخالفت اور حق میں دلائل دیے جا رہے ہیں۔ اس پر کئی مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سخت مؤقف بھی سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ اس بل کی منظوری سے پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دیا جائے گا اور یہ غیر فطری جنسی تعلقات کو تحفظ فراہم کرنے کی سازش ہے۔ بل قرآن و سنت سے متصادم اور آئین پاکستان کے منافی ہے۔ یہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش ہے۔ ہمارا مذہب اور معاشرہ ایسی کسی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارا معاشرہ جو پہلے اخلاقی طور پر انحطاط پذیر ہے اس بل کی منظوری سے مزید زوال پذیر ہو جائے گا‘‘۔ بہت سے لوگ اس بل کو پڑھے بغیر اس پر رائے زنی کر رہے ہیں حالانکہ سوشل میڈیا پر اُردو اور انگریزی میں اس بل کا مکمل متن گردش کر رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک ٹرانس جینڈر کی تعریف ہی واضح نہیں ہوئی اور ٹرانس جینڈر کے بارے متضاد آراء سامنے آرہی ہیں۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ فطری طور پر غیر واضح جنس کے حامل افراد (جنہیں خواجہ سرا یا ہیجڑا بھی کہا جاتا ہے) کو ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے مگر دوسرے طبقے کا مؤقف ہے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح ہی ان افراد کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرواتے ہیں ۔ جو مرد نفسیاتی طور پر خود کو عورت سمجھتے ہیں باوجود اس کے وہ طبی اور طبعی طور پر مرد ہیں وہ خود کو نادرا میں بطور عورت رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں اور اپنی اس شناخت کے بعد وہ کسی مرد سے شادی بھی کر سکتے ہیں جس سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔
گزشتہ دنوں ایک تنظیم ’’فیسز پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام اس حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس میں شرکت کا موقع ملا جس میں وکلا، صحافی، این جی اوز کے نمائندے اور خواجہ سرا شریک ہوئے اور اس بل پر سب نے کھل کر اظہار رائے کیا۔ خواجہ سراؤں نے اپنے جو مسائل پیش کیے وہ واقعی تشویش ناک ہیں۔
خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہے۔ خواجہ سرا ہونے میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن ان کا خاندان اور معاشرہ انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس حوالے سے بھی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خواجہ سرا نارمل زندگی گزارنا، تعلیم اور ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر معاشرتی رویے قدم قدم پر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں البتہ ان میں سے بہت سے ثابت قدم رہ کر تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور روزگار بھی لیکن دوسری طرف وہ خواجہ سرا ہیں جن کے والدین اور خاندان والے انہیں نارمل زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں مگر وہ دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ زمانے کے ستائے ہوئے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے خواہش مند خواجہ سراکسی ’’گرو‘‘ کے حلقے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں ناچ گانے پر لگا دیا جاتا ہے۔ کچھ بخوشی یہ کام کرتے ہیں اور گرو ان کی خرید و فروخت کا دھندہ بھی کرتے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے مسائل اصل خواجہ سراؤں کے ہیں جنہیں ہر سطح پر حل ہونا چاہئے۔ انہیں باعزت طریقے سے تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے ’’اخوت فاؤنڈیشن‘‘ قابل تحسین ہے کہ وہ اس سلسلے میں کام کر رہی ہے۔
لیکن اصل مسئلہ ٹرانس جینڈرز یا اپنی مرضی سے اپنی جنس کا تعین کرنے والوں کے حوالے سے قانون سازی کا ہے۔ اس حوالے سے حکومت اورتمام صاحب الرائے افراد اور اداروں کو مل بیٹھنا چاہئے جب یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو تحریک انصاف کی وزیر شیریں مزاری کا بیان ویڈیو ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جنسی شناخت ہر شخص کا اپنا حق ہونا چاہئے اور اس کیلئے کسی طبی معائنے کی شرط نہیں ہونی چاہئے۔ اس بیان سے انکے نظریے کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پارلیمنٹ ایک مقتدر ادارہ ہے۔ لیکن ہر رکن پارلیمنٹ عقل کل نہیں اور نہ وہ اسلامی تعلیمات سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے وزیر بھی رہے ہیں جن کو سورۃ الاخلاص بھی نہیں آتی اس سے انکے اسلامی اخلاص کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میں نے ٹرانس جینڈر ایکٹ اور اس کے حق و مخالفت میں تمام تحریریں اور دلائل پڑھے ہیں۔ میں یہاں اپنی کوئی رائے نہیں دینا چاہتا لیکن حکومت سے یہ ضرور گزارش کروں گا کہ یہ ایک اہم اور حساس معاملہ ہے اس پر ایک قومی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں علماء کرام، طبی ماہرین، این جی اوز کے نمائندے، ٹرانس جینڈرز یا خواجہ سرا، اراکین اسمبلی کو شامل کر کے اس حوالے سے واضح اور غیر متنازعہ پالیسی بنانی چاہئے۔ البتہ ایک سادہ سی بات ہے کہ جنسی شناخت کی تبدیلی کے خواہش مند افراد کا میڈیکل بورڈ سے معائنہ ہونا چاہئے جو ان کی جنس کا تعین کر کے سر ٹیفکیٹ جاری کرے تب نادرا میں اسکی رجسٹریشن ہو۔
ویسے ہمارے ہاں ایک وفاقی شرعی عدالت بھی ہے۔ اگر اس مسئلے کے اتنے شور شرابے سے اس معزز عدالت کے کسی معزز رکن کی آنکھ خواب غفلت سے کھل جائے تو وہ ’’ازخود نوٹس‘‘ لے کر فریقین کو طلب کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ معاشرتی و سماجی ہی نہیں شرعی مسئلہ بھی ہے…!!!!
ٹرانس جینڈر ایکٹ اور ہماری ذمہ داریاں
Sep 29, 2022