امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے اور قرضوں میں نرمی کیلئے چین سے بات چیت کرنی چاہیے۔ گزشتہ روز امریکہ اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے واشنگٹن میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کے درمیان مفصل بات چیت ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو سے بھارت کے ساتھ پاکستان کے ذمہ دارانہ تعلقات کو منظم کرنے کی اہمیت پر بات کی ہے اور ان پر اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ وہ چین سے قرضوں میں نرمی اور قرضوں کی تنظیم نو کے معاملہ پر بات کریں تاکہ پاکستان سیلاب سے پیدا شدہ حالات کے اثرات سے جلد باہر نکل سکے۔ انکے بقول انہوں نے بلاول بھٹو سے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بات چیت کے دوران ان سے دونوں ممالک کے جمہوری ہونے کی حیثیت سے مذہبی آزادی‘عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی جیسی بنیادی قدروں کا احترام کرنے سے متعلق وعدے پورے کرنے کے معاملہ پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
امریکی وزیر خارجہ نے سیلاب کے باعث قیمتی انسانی جانوں اور ملک کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر پاکستان سے تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا اور بحالی اور تعمیرنو کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ ہم ایک سادہ سا پیغام دے رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ آج بھی ویسے ہی کھڑے ہیں جیسے ماضی میں آنیوالی قدرتی آفات کے دوران کھڑے تھے۔ انہوں نے پاکستان کیلئے ایک کروڑ ڈالر کی مزید امداد کا بھی اعلان کیا۔
اس وقت پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور مستقبل قریب میںبھی اسے خوراک و اجناس کی قلت جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے‘ اسکے پیش نظر اقوام عالم کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ہمدردی اور اسکی مالی معاونت کیلئے فراخدلی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سیلاب سے ہونیوالے جانی نقصان کی تلافی تو ممکن ہی نہیں جبکہ پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے مجموعی نقصانات بھی اتنے زیادہ ہیں کہ انکے ازالہ کیلئے دنیا بھر سے ملنے والی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف نظر آتی ہے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویترس نے بطور خاص عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی اور پھر انہوں نے پاکستان آکر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہونیوالے نقصانات کا خود جائزہ بھی لیا جس کی بنیاد پر انہوں نے ماحولیاتی آلودگی پھیلانے اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے ممالک کو باور کرایا کہ انکی وجہ سے پاکستان کو غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب سے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اس لئے ان ممالک کو آگے بڑھ کر پاکستان کی مالی معاونت کرنی چاہیے۔
بے شک امریکہ کی جانب سے بھی اس مشکل گھڑی میں پاکستان کی مالی معاونت کی گئی اور اب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کیلئے مزید ایک کروڑ ڈالر کی گرانٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اسکے دیرینہ اور قابل بھروسہ دوست چین نے پاکستان کی مالی امداد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ عرب ریاستیں بھی پاکستان کی مالی معاونت میں پیچھے نہیں رہیں۔ اسکے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے جو ہمارے ساتھ قیام پاکستان کے وقت سے ہی دشمنی نبھا رہا ہے‘ پاکستان کی امداد تو کجا‘ اسکے ساتھ ہمدردی کے دو بول بولنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور یہ اپنی جگہ الگ حقیقت ہے کہ پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی کے بھارتی سازشی منصوبوں کے باعث بھی پاکستان میں سیلاب کی شدت بڑھی ہے جو اس کیلئے ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات کا باعث بنی ہے۔ اس صورتحال میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ چہ معنی دارد؟
پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد تو کشمیر کا تنازعہ پیدا کرکے بھارت نے خود رکھی ہے اور وہ اس دشمنی کو بڑھاتا ہی رہا ہے جو پاکستان کی سلامتی کے ہمہ وقت درپے ہے اور اس پر مسلط کی گئی روایتی جنگوں کے علاوہ پاکستان میں اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں کراکے بھی بھارت پاکستان کی سلامتی پر اوچھے وار کرتا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے اس نے کابل انتظامیہ کو بھی اپنا ہمنوا اور معاون بنایا چنانچہ بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد زیادہ تر افغان سرحد سے ہی پاکستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور بھارتی ایماء پر افغانستان کے اندر سے بھی پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔
بھارت نے کشمیر کا تنازعہ تو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کیلئے ہی کھڑا کیا جس کی بدنیتی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے ہی پیدا کردہ اس تنازعہ کو اقوام متحدہ میں وہ خودلے کر گیا اور جب یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اس تنازعہ کے تصفیہ کیلئے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا تو بھارت آج تک ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے راستے پر نہیں آیا جبکہ اس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کیلئے شملہ معاہدہ سے بھی انحراف کیا اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز بھی وہ خود رعونت کے ساتھ الٹاتا رہا ہے۔ اس نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور پھر اس ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے باقاعدہ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنادیا۔ اس نے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ان پر ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ آزمانے سے بھی گریز نہیں کیا اور پاکستان اور چین کی سلامتی کیخلاف سازشیں بھی وہ عالمی فورموں پر انہیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانے سے روکنے کیلئے بروئے کار لاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نائن الیون کے سانحہ کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغان دھرتی پر شروع کی گئی نیٹو ممالک کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا اور اسکے برعکس اس نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اسے علاقے کا تھانیدار بنانے کی کوشش کی۔ اسی امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے ہی خطے میں طاقت کا توازن خراب ہوا اور بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے مزید شہ ملی۔ اسی بنیاد پر علاقائی امن و سلامتی محفوظ کرنے اور خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے کیلئے چین اور پاکستان میں پہلے سے بھی زیادہ قربت ہوئی اور چین نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم کو نہ صرف اقوام عالم میں بے نقاب کیا بلکہ بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے مودی سرکار کے پانچ اگست والے اقدام کیخلاف سلامتی کونسل کے یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاس بلوائے۔ یقیناً اسی تناظر میں امریکہ اور بھارت کو پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور انہوں نے پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کو بھی سبوتاژ کرنے کی سازش کی جسے چین نے پاکستان کے ساتھ مضبوط دوستی کا اعلان کرکے ناکام بنایا۔
آج پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث مشکلات میں گھرا ہے تو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانے والے اس امریکی اتحادی کے ساتھ امریکہ کو ٹھٹھہ مذاق کی سوجھ رہی ہے اور وہ اسے مالی معاونت کیلئے چین سے رجوع کرنے کے علاوہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے بھی طعنہ زنی والے لہجے میں مشورے دے رہا ہے۔ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں پر عملدرآمد کی راہ پر لے آئے تو پاکستان بھارت تعلقات ازخود سازگار ہو جائیں گے۔ چین نے تو امریکی طعنہ زنی کا فوری جواب دے کر اسے باور کرادیا ہے کہ بیجنگ تو اپنے دوست پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے‘ امریکہ اسکی حقیقی مدد کیلئے آگے بڑھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان چین بے لوث دوستی علاقائی امن و استحکام کی بھی علامت بن چکی ہے جس میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کوئی ہلکی سی بھی دراڑ پیدا نہیں کرسکتا جبکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے ایک نئے علاقائی بلاک کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔ اگر پاکستان‘ چین‘ روس‘ ترکی اور ایران پر مشتمل ایک نیا بلاک تشکیل پا جائے جس کے قوی امکانات موجود ہیں تو امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی اس خطے میں کبھی دال نہیں گل پائے گی۔