اقوام متحدہ کی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی ملنی ہوتی ہے وہاں راتوں رات قراردادیں منظور کرکے فوری عملدرآمد کرایا جاتا ہے لیکن اسکے برعکس جہاں مظلوم مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے آزادی درکار ہو‘ وہاں 74سال تک اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عملدآرمد یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح امریکہ کی پالیسی ہے کہ’’ لڑاؤ اور کماؤ‘‘۔ امریکہ کی معیشت کو سب سے زیادہ سہارا اسلحے کی تجارت سے ملتا ہے اور اسلحے کی تجارت کے فروغ کیلئے امریکہ دنیا بھر میں پڑوسی ممالک میں تنازعات پیدا کرنے اور انہیں ہوا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد معاشی مفاد حاصل کرنا ہے۔ کشمیر کے تنازعے پر بھی امریکہ چاہتا تو یہ مسئلہ مشرقی تیمور کی طرح راتوں رات حل ہوسکتا تھا لیکن یہاں امریکہ کا مفاد اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کبھی حل نہ ہو اور اسی کو بنیاد بناکر وہ پاکستان اور بھارت کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔
اس وقت یہ صورتحا ل ہے کہ بھارت اپنے بجٹ کا بہت بھاری حصہ دفاع کیلئے مختص کرتا ہے اور دھڑا دھڑ اسلحے کے انبار لگارہا ہے ۔ چنانچہ پاکستان مجبور ہے کہ وہ بھی دفاعی لحاظ سے بھارت کے ہم پلہ رہے ۔ دوسری طرف بھارت میں عام آدمی غربت کی انتہاء کو ہے اور وہاں شام میں جب بازار بند ہوتے ہیں تو دکانوں کے باہر لوگوں کے گھر آباد ہوجاتے ہیں اور بھارت کی بہت بڑی آبادی کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں لیکن پاک بھارت تنازعات کی وجہ سے بھاری رقوم دفاع پر خرچ کرنا مجبوری ہے۔بھارت آئے روز سرحدی خلاف ورزیاں کرکے پاکستان کو دفاع پر مزید بھاری رقوم خرچ کرنے پر مجبور کررہا ہوتا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی میں جس قدر اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی امریکہ کا معاشی فائدہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور امریکہ اسی کشیدگی کی آڑ میں دونوں ممالک کو اپنا مہنگا ترین اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اب پاکستان اور بھارت نے ایٹم بم بنارکھے ہیں جو دنیا کی مہنگی ترین ٹیکنالوجی ہے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کو شاید اندازہ ہے کہ یہ ایٹم بم کبھی نہیں چلنے لیکن اپنے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی دوڑ میں شامل ہیں۔ میرے خیال میں تو اصل طاقت معاشی طاقت ہے جو ملک کی یکجہتی اور دفاع کیلئے لازم ہے۔ روس کے پاس بھی 550ایٹم بم موجود تھے لیکن جب افغان جنگ میں شکست کے ساتھ وہ معاشی طور پر تباہ ہوگیا تو یہ ایٹم بم اس کے کسی کام نہ آئے اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان مرحوم ہمیشہ کہتے تھے کہ خطے میں امن اور باہمی تجارت ہی اس خطے کے عوام کا مقدر بدل سکتی ہے اور پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان اور ایران میں ایسے حکمران ہونے چاہئیں جو باہمی تجارت کو فروغ دیں اور آپس میں طویل عرصے تک جنگ نہ کرنے اور سرحدی خلاف ورزیاں نہ کرنے کے معاہدے کریں۔ کشمیر پاک بھارت تنازعے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور ہم کسی صورت بھی کشمیر کا سودا نہیں کرسکتے اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہوسکتا ہے۔ کشمیر پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور اس مسئلے کے حل کیلئے بھارت پر تمام ممکنہ دباؤ جاری رکھنا ضروری ہے۔ اگر خطے کے حکمران واقعی عوام کی خوشحالی چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ فوری طور پر طویل عرصے تک جنگ نہ کرنے کا باہمی معاہدہ کریں اور پاکستان‘ ایران‘ بھارت اور افغانستان آپس میں تجارت کا بھرپور آغاز کرکے ان ممالک میں پیدا اور تیار ہونے والی چیزیں ایک دوسرے کو لوکل کرنسی میں فروخت کریں اور ایسی اعتماد سازی کی ضرورت ہے جس سے خطہ اسلحے کی دوڑ سے نکل جائے اور چاروں ممالک اپنے بجٹ کا کثیر حصہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تاکہ عوام کو خوشحالی نصیب ہو۔ عوام خوشحال ہوں گے اور معیشت مضبوط ہوگی تو ملک کی یکجہتی و دفاع مضبوط تر ہوجائیگا۔ پاک بھارت باہمی اعتماد سازی کی ضرورت ہے ۔
2013ء کے اوائل میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جاتے جاتے پاک ایران گیس پائپ لائن کا سنگ بنیاد رکھا اور تمام عالمی دباؤ کو پس پشت ڈال کر اسے مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا لیکن عملی طور پر 9سال گزرنے کے باوجود ایران گیس پائپ لائن تاحال مکمل نہیں ہوئی حالانکہ ایران نے اپنے ملک کی حدود میں پائپ لائن کئی سال پہلے سے مکمل کرلی ہے لیکن گزشتہ ن لیگ ‘ تحریک انصاف اور اب پھر اتحادی حکومت نے اس سلسلے میں مسلسل مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ایران و بھارت سے سبزیاں‘ خوراک اور زرعی اجناس منگوانے میں میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں اور باہمی تجارت کا آغاز کرکے اس میں توسیع کی جائے۔ اس بارے میں کشادہ دلی کی ضرورت ہے اور بھارت بھی باہمی تجارت میں پاکستان کو ترجیح دے اور تجارت کا حجم برابر ہونا چاہئے نہ کہ بھارت یکطرفہ طورپر صرف پاکستان پر اشیاء فروخت کرے بلکہ پاکستان سے اشیاء کی خرید کے بھی معاہدے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح ایران بھی پاکستان سے دوطرفہ تجارت پر زور دے ۔ ایران و بھارت سے مقامی کرنسیوں میں لین دین ہونا چاہئے۔
بہرحال سارک‘ آر سی ڈی سمیت مقامی ممالک کے پلیٹ فارمز کو متحرک کرکے خطے میں پائیدار امن و ترقی کی جانب پیش رفت کرنا ہی عوام کے بہترین مفا د میں ہے اور انہی مقامی پلیٹ فارمز پر مذاکرات کرکے مسئلہ کشمیر عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے کیونکہ امریکہ و اقوام متحدہ پر اب بھی یہ توقع باندھنا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائیں گے‘ ایک طرح کی حماقت ہے۔ ہمیں حقیقی ترقی کے لئے پائیدار امن کی جانب تیز تر پیشرفت کرنی ہوگی جو یقینی طور پر خطے کے تمام ممالک کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔