ندیم بسرا
وفاق اور پنجاب ایک بار پھر خبروں کی زد میں ہے ۔اسحق ڈار کی واپسی اور معیشت کی بہتری کے اقدامات کی باتیں زبان زد عام ہیں تو پنجاب میں عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی کال سے قبل تیاریاں ایک بار پھر عروج پرہیں ۔پنجاب جہاں وزیراعلی چودھری پرویز الہی خود وفاق سے گلے شکوے کرتے نظر آرہے ہیں کہ وفاق نے سیلاب زدگان کیلئے آنے والی ا مداد میں پنجاب کو کچھ نہیں دیا ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ وفاقی حکومت نے پنجاب کو 146ارب روپے کے واجبات ادا نہیں کئے ۔اسی طرح کے گلے شکوے جاری ہیں ۔اس کے ساتھ پنجاب میں چئیرمین عمران کی لانگ مارچ کے اعلان کی تاریخ سے قبل ہی تیاریاں کی جارہی ہیں ،خصوصا پولیس فورس کوفول پروف سیکورٹی اور کسی ممکنہ خدشات کے پیش نظر دوسرے اقدامات کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔ ساتھ ہی پنجاب میں کے پی کے سے بھی پولیس فورس منگوانے کی خبروں میں تیزی آگئی ہے ۔ کے پی کے کی حکومت تو شاید اس پر راضی ہوجائے مگر انتظامیہ کی جانب سے اس پر فی ا لفور رضامندی ظاہر نہیں کی جارہی ۔
پی ٹی آئی خصوصا لاہور کی قیادت جس میںشفقت محمود، میاں اسلم اقبال،یاسمین راشد ،محمود الرشید ،حماد اظہرسمیت دیگر نامور شخصیات شامل ہیں وہ چیئرمین عمران خان کی پچیس مئی کی کال پر کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے تھے ۔ اس بار لاہور تمام تر تیاریوں کے ساتھ بڑا اپ سیٹ کرنا چاہتا ہے ۔عمران خان کی کال سے قبل شرمندگی سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی لاہور کی زیادہ تر قیادت خود ہی پولیس کے آگے ہتھیار ڈال کرناکامی دکھا چکی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک صوبائی وزیر کی اپنے گھر میں الماری میں چھپنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔اس بارگیندچودھری پرویزا لہی کی کورٹ میںہے ،دیکھیں چودھری پرویز الہی کیاحکمت عملی اپناتے ہیں، اور سیاسی اتحادی کے طور پر پی ٹی آئی کو کیا ’’گر ‘‘یا ’’ہنر مندی‘‘کی باتیں بتاتے اور سکھلاتے ہیں ۔چودھری پرویز الہی جو ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں ان کی قیادت میں اس بار پی ٹی آئی لاہور کی ٹیم جو مئی کے لانگ مارچ میں ناکام ہوئی ان کو یقینا سیکھنے کا موقع ملے گا ۔اس جماعت کی زیادہ تر قیادت چونکہ سیاسی بیانات پر یقین رکھتی ہے ،دھرنوں،لانگ مارچ یا ریلیوں کی مشق سے نہیں گزری ہے، لہٰذا پی ٹی آئی لاہور کی قیادت کو نیند سے بیدار کرنا آسان کام نہیں ہے ۔جس سے یہی لگتا ہے کہ لاہور پی ٹی ا ٓئی کی قیادت سے خالی ہی ہے۔اس کی تازہ مثال یہی ہے کہ پی ٹی آئی لاہور یا پنجاب کو سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ یا سابق صوبائی وزیر ،ترجمان فیاض الحسن چوہان ہی فرنٹ پر نظر آتے ہیں باقی سیاسی لوگ تو لمبی تان کے سو گئے ہیں۔ یا ڈاکٹر شہباز گل سے سبق سیکھ کر ہی چپ ہوگئے ہیں ۔تو یہ نہ ہوکہ عمران خان کی کال پر پی ٹی آئی لاہور کی قیادت دوسری بار پھر ناکام ہو جائے اس کے لئے چئیرمین عمران خان کوخود سوچنا ہوگا ۔دوسری جانب پنجاب حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان سرد جنگ ختم ہوگئی ہے ۔چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ سنبل پنجاب حکومت کے ساتھ بہتر حکمت عملی سے کام کررہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ سابق چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران علی افضل کی بیوروکریسی میں باقیات کا آہستہ آہستہ خاتمہ کیا جارہا ہے ،کمشنرز ،سیکرٹریز کی تعیناتیاں بھی جاری ہیں ،عبداللہ سنبل جو خود ایک سپورٹس مین ہیں،وہ کھیل کے میدان کے ساتھ انتظامی میدان میں بھی سرخرو ہونا جانتے ہیں اس لئے وزیراعلی پنجاب ان کے ساتھ بڑے اعتماد کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ کیونکہاس سے قبل سابق چیف سیکرٹری کی طرف سے بیشتر معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا ، اب یہ معاملات طے پانے پر پنجاب میں یقینا ترقیاتی کام تیز ہو سکیں گے ۔خصوصا پنجاب میں سیلاب زدگان کی بحالی جو اولین ترجیح ہے، اس پر کسی طور بھی توجہ نہیں ہٹانی چاہئے ۔پنجاب پولیس کے سربراہ آئی جی فیصل شاہکار کے پنجاب حکومت کے ساتھ معاملات مثالی نہیں ہیں ۔وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے حال ہی میں ایک ویڈیو لنک پر صوبہ بھر کے آر پی اوز کے ساتھ کانفرنس لا انعقاد کیا،جس میں آئی جی پنجاب کو مدعو نہیں کیا گیا یا وہ خود شریک نہیں ہوئے ۔اس میٹنگ میںسی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر بھی شریک ہوئے ،وزیراعلی پنجاب اس سے قبل غلام محمود ڈوگر کو بلا کر شاباش دے چکے ہیں جس سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے ،غلام محموڈوگر ایک منجھے ہوئے پولیس آفیسر ہیں ان کا ٹریک ریکارڈ کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے ،شہری بھی ان سے خوش نظر آتے ہیں اسی لئے وہ وزیراعلی پنجاب کے نزدیک ایک قابل ستائش پولیس افسر ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛