دریاﺅں کے بیج بستیاں اور فطری بھاﺅ کارو کنا مسئلہ بن گیا

 میاں غفار احمد 

سیلاب کا بڑا ریلا پنجاب اور سندھ کے لاکھوں لوگوں کو بے گھر، لبے آسرا اور کوڑی کوڑی کا محتاج کر کے کراچی اور بدین کے درمیان سمندر میں جا گرا۔ سیلاب قانون قدرت اور دریاوں کی زندگی ہے اور سمندر کے قریب ساحل پر سمندر اور دریائے سندھ کا ملاپ کرتی ہوئی 17 کریکس جنہیں آپ دریا کی شاخیں کہہ لیں، میں اس سیلابی ریلے سے زندگی لوٹ آئی ہے۔ اس مرتبہ دریائے سندھ میں تقریبا 7 لاکھ کیوسک پانی تھا جو کہ 2010 کے سیلاب سے دو سے تین لاکھ کیوسک کم تھا، مگر یہ 2010 کی نسبت سندھ میں زیادہ نقصان کر کے گزرا ہے البتہ پنجاب میں نقصان گزشتہ سیلاب کے مقابلے کم ہے۔ 2010ء  والا سیلاب تو کالا باغ کے مقام پر جناح بیراج کراس کرتے ہی دریائے سندھ کے دونوں اطراف پھیل گیا تھا اور اس نے 35 سے 40 کلومیٹر کے علاقے کو سیلابی لہروں میں سمو لیا تھا۔ اب کروڑوں کی تعداد میں سمندری حیات ساحلی پٹی کے 20 سے زائد ڈیلٹا پھر سے آباد کرے گی اور پھر سالہا سال کا دریائی فضلہ بھی سمندر کا حصہ بننے سے آبی حیات کو تازہ خوراک ملے گی۔ آبی ماہرین کے مطابق ہر سال جو 100 سے 150 کلومیٹر کا علاقہ سمندر اپنے اندر سمو لے جاتا تھا وہ عمل بھی چند سال کے لئے رک جائے گا اور چونکہ انسان نے اس ایکو سسٹم کو برباد کیا جسے فطرت نے پلٹ کر دوبارہ توازن پیدا کر دیا ہے۔
 ہم نظام قدرت کو روندتے ہوئے جب دریاوں کے پیٹ میں آبادیاں بناتے ہیں۔ جب ہم فنی اور فطرتی بنیادوں کی بجائے سیاسی بنیادوں پر دریاؤں کے کنارے بند اور سپر بنا کر ان کا راستہ روکنے اور موڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو پھر ہر آٹھ دس سال بعد امور قدرت میں یہ مداخلت ہمیں بہت مہنگی پڑتی ہے اور اربوں کا نقصان کر جاتی ہے۔
دریائے سندھ جونہی پہاڑی علاقوں سے گزر کر کالا باغ سے میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے دریا کے دونوں اطراف طاقتوروں کے سرکاری زمینوں پر قبضے ہیں۔ ہیڈ تونسہ کے پانڈا ایریا پر کس کا قبضہ ہے اور کس کس نے ہیڈ تونسہ کو بڑے سیلابی ریلے کے نقصان کے لئے بنائے گئے واٹر چینل کی اراضی پر قبضے کر رکھے ہیں۔ ہیڈ پنجند اور ہیڈ اسلام کے پانڈ ایریا پر کون قابض ہے۔کون نہیں جانتا کہ حکومت جمہوری ہو یا غیر جمہوری یہ سیاسی قابضین ہر صاحب اقتدار کی گڈ بکس میں رہنے کے گر جانتے ہیں اور اپنے قبضے قائم رکھتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر صورتحال سندھ کی ہے۔ 
سابق وزیراعظم کے حکم پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سرکاری اراضی پر جتنے بھی قبضے جنوبی پنجاب کی حد تک ختم کرائے تھے ان میں سے 90 فیصد انہی کے دور اقتدار میں دوبارہ قابضین ہی کے پاس واپس چلے گئے تھے اور سابق وزیراعظم کو سب اچھا کی رپورٹ دیدی گئی تھی۔ کالا باغ سے شروع ہونے والے دریائی زمین پر یہ قبضے اسی طرح شاہوالی، ضلع راجن پور سے سندھ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر گڈو بیراج کی ڈاؤن سٹریم سے آگے نئے سیاسی قابضین سامنے آ جاتے ہیں نہ کوئی آبیانہ دیتے ہیں اور نہ کوئی ٹیکس۔ چند اشتہاریوں کو پناہ دو، دو چار پیٹر انجن خریدو اور دریائی پانی سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب کرو۔ اگر کوئی اشتہاری اتنا سر پھرا ہو جائے کہ از خود کاشت شروع کر کے سرداروں اور مقامی زمینداروں کو چنوتی دے تو پھر پولیس دونوں صوبوں میں سہولت کاری کے لئے موجود ہے۔ مختلف  جھوٹے سچے مقدمات میں اشتہاری قرار دلوائیں، اور باآسانی ان  "اشتہاریوں" کی فصل کی قرقی کے لئے جدید مشینری لے کر پہنچ جائیں۔
تیار اور پکی ہوئی گندم کی قرقی میں رحیم یار خان پولیس ہمیشہ ہی وکٹری اسٹینڈ پر پہلے نمبر پر رہی ہے پھر راجن پور اور آخر میں بہاول پور کے علاقے چولستان کے حوالے سے پولیس اور بعض سیاست دان وکٹری اسٹینڈ پر تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ کبھی پولیس افسران سے پوچھیں کہ آخر اشتہاریوں کے خلاف آپ کا تمام تر آپریشن سال کے انہی دنوں میں کیوں ہوتا ہے جب گندم کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور اس کا گندم کا کتنے فیصد بحق سرکار ضبط ہوتا ہے۔ کتنے فیصد وڈیرے اور عوامی نمائندے لے جاتے ہیں اور پھر آخر میں کتنے فیصد حصہ پولیس والوں کا مقدر ٹھہرتا ہے، اس سوال کا کبھی جواب نہیں ملے گا۔ البتہ جن کی ساری فصل قرقی کے نام پر ضبط کر لی جاتی ہے ان کے پاس واحد ’’روزگار‘‘ ڈکیتی، راہزنی اور اغوا ہی بچتا ہے کہ کبھی ان علاقوں میں جا کر دیکھیں آپ کو نہ سکول ملیں گے نہ شفا خانے، البتہ شدت کی گرمی اور حبس میں مچھر اور تمام موذی جانور وافر ملیں گے۔ 
     تادم تحریر سرکاری دعوے تو صرف دعوے ہی ہیں عملاً کچھ خاص نہیں البتہ فلاحی جماعتوں، تنظیموں  اور فوجی جوانوں نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک پرائیویٹ ایجوکیشنل گروپ سیلابی علاقوں میں خاص میٹریل سے 4500 گھر بنا کر دے رہا ہے اور اس کے لئے مذکورہ گروپ نے پری کاسٹ مینوفیکچرز سے معاہدہ بھی کر لئے ہیں  غیر ملکی ادارے اور انفرادی حیثیت میں بھی لوگ کام کر رہے ہیں تاہم جس طرح بعض چھوٹی جماعتیں جو ہر الیکشن میں عوام کی طرف سے مسترد کر دی جاتی ہیں امدادی کام میں دن رات مشغول دکھائی دیں وہ جذبہ ہر طرح کے سروے میں 65 فیصد سے بھی زائد مقبولیت کی حامل جماعت پاکستان تحریک انصاف میں بھی بہت کم ہی دکھائی دیا۔ ٹیلی تھون کہاں جا کر تھم گیا فی الحال تو راوی تمام تر "اچھل کود" کے بعد خاموش ہے۔

ای پیپر دی نیشن