علامہ منیر احمد یوسفی
”ماہِ ربیع الاوّل شریف اِسلامی کیلنڈر کا تیسرا مہینہ ہے سب سے بہتر اور حق بات یہ ہے کہ جو کچھ اِس ماہِ مبارک میں ذکر کیا گیا ہے ‘اُس میںسے نبی آخرالزماں‘ حبیب ِکبریا‘ امام الانبیاءسید المرسلین‘ رحمةللعالمین ‘شفیع المذنبین حضور نبی کی ولادتِ باسعادت اور وصالِ پاک ہے ۔آپ سوموار کے دن طلوعِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے‘ اُس وقت پیدا ہوئے جبکہ نہ رات کا اندھیرا تھا اور نہ ہی دن کا اُجالا تھا۔ آپ کی ولادت باسعادت کے مقدس لمحات رات اور دن کے دونوں اوقات سے فیض یاب ہوئے۔نبی کریم کی ولادت باسعادت اﷲ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت یعنی نعمت ِکبریٰ ہے۔ وہ سال‘ مہینہ‘ دن ‘تاریخ اوروقت تمام سالوں ‘مہینوں ‘دنوں ‘ تاریخوں اور اوقات سے بڑھ کر فضیلت والا ہے۔شیخِ محقق شیخ المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب” مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّةَ “ میں لکھتے ہیں: (رات اور دن کے حصّوں میں ولادت کی نسبت سے) لیلة المیلاد، لیلة القدر سے افضل ہے ۔آپ دلیل پیش فرماتے ہیں۔وہ رات جس(کے حصّہ) میں نبی کریم پیدا ہوئے وہ لیلة القدر سے اِس لئے افضل ہے کہ اُس (کے حصّہ) میں آپ کی ذات شریف کا ظہور مبارک ہوااور لیلة القدر آپ کو عطا ہوئی۔ (یعنی آ پ تشریف لائے تو لیلة القدر اُمّت کو ملی) لیلة القدر آپ کو عطا ہونے سے مشرف ہوئی۔ لہٰذا جس ذات کی وجہ سے یہ رات مشرف ہوئی‘ وہ ذات مبارکہ زیادہ مشرف ہے۔ لیلة القدر میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور لیلةالمیلاد ( کے حصّہ )میں امام الانبیاء‘ محبوب رب العالمین کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی ۔
قرآنِ مجید میں رسول کو” نِع±مَتَ اللّٰہِ“ فرمایا گیا ہے جن کا کفّارومشرکین اور یہود ونصاریٰ نے انکارکیا۔ ارشاد ِ خداوندی ہے: کیا تم نے اُنہیں نہ دیکھا جنہوں نے اﷲ (تبارک و تعالیٰ)کی نعمت، ناشکری سے بدل دی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر لا اتارا۔ (ابراہیم: 28) اِس آیتِ مبارکہ میں نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور جب رسولِ کریم نعمتِ الہیہ ہیں تو دوسرے مقام پر اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو“۔(الضحٰی :11) اﷲ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا زبان سے ، عمل سے اور حال سے ذکر کیا جائے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اِیمان والوں پر انعام فرماتے ہوئے‘ اِرشاد فرمایا : ”بےشک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اِیمان والوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں‘ اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا“۔ (آل عمران: 164)اﷲ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریم کو جہانوں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ حضور کائنات پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور بہت بڑی رحمت ہےں۔ فضل و رحمت کے شکرانے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”اے محبوب آپ فرما دیں کہ اﷲ (تبارک و تعالیٰ)ہی کا فضل اور اُسی کی رحمت ہے اور چاہئے کہ اِس پر خوشی کریں۔“(یونس: 58) رسول کریم اور قرآنِ مجید ‘ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہیں ۔ لہٰذا ربیع الاول شریف میں خصوصی اہتمام کے ساتھ رسول کریم کی ولادت باسعادت کی خوشی منانا اور رمضان المبارک کے مہینہ میں نزول قرآنِ مجید کا جشن منانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ کیونکہ صاحبِ قرآن، امام المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ کی برکت ہی سے قرآنِ مجید کا آپ پر نزول ہوا۔
ہمارا عقیدہ ہے نبی کریم کے کمال ِخُلق کی طرح کمالِ خلقت میں بھی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کسی مخلوق کو حضور کا مثل پیدا نہیں کیا اور نہ کرے گا۔محدثینِ کرام نے ولادتِ مصطفےٰ کریم کی عظمت وشان اور صفة النبی کے مختلف ابواب کے تحت نبی الانبیاءحبیب ِ کبریا،حضرت محمد مصطفی کے حسن وجمال کو بیان فرمایاہے‘ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ” کتاب المناقب“میں ایک باب باندھا ہے ”بَابُ صِفَةِ النَّبِیِّ“ اُس میں تحریر فرماتے ہیں:۔حضرت براءبن عازبؓ سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں ”رسول کریم کا چہرہ (مبارک)سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ سب لوگوں سے زیادہ خوش خلق تھے۔ آپ نہ تو بہت لمبے (قدکے ) تھے اورنہ ہی پست قد تھے۔
حضرت ربیع بن عبدالرحمنؓ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہےں ‘وہ فرماتے ہیں‘میںنے حضرت انس بن مالکؓ کو فرماتے ہوئے سنا:۔انہی سے دوسری روایت مبارکہ میں ہے” نبی کریمؓ لوگوں میں درمیانہ قدتھے نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ پست قد ،نہ بالکل سفید تھے اورنہ گندمی رنگ تھا۔ سر (انور)کے بال (مبارک) زیادہ بل کھاتے ہوئے نہیں تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے۔امام اہلسنّت‘ امام احمدرضافاضلِ بریلوی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا:بیاض سے مراد وہ سفیدی ہے جس میں سرخی کی جھلک ہو۔ آپ کا رنگ نہ تو بالکل سفید تھا اور نہ ہی بالکل سرخ بلکہ سرخ سفید ملاجلا تھا ۔یہ نہایت خوبصورت رنگ ہے۔ عمر شریف چالیس برس کو پہنچی جس وقت آپ پر وحی اتری۔
خوشبودار جسم مبارک:
حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ”رسول کریم کارنگ (مبارک ) سفید(سرخی مائل) چمکتا ہوا تھا ۔ (علامہ نووی فرماتے ہیں ‘ یہ رنگ سب رنگوں سے عمدہ ہے) اور آپ کا پسینہ (مبارک) موتی کی طرح تھا اور جب چلتے تھے تو آگے جھکے ہوئے‘ زور ڈال کر اور میں نے دیباج اورحریر بھی اتنا نرم نہیں پایا جیسے آپ کی نورانی ہتھیلی مبارک نرم تھی اور میں نے مشک وعنبر میں یہ خوشبو نہ پائی جو آپ کے جسم مبارک میں تھی۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ”اشعة للمعات“ میں لکھتے ہیں‘ بعض روایات میںدرج ہے کہ جب آپ لوگوں میںکھڑے ہوتے تو تمام لوگوں سے بلند دکھائی دیتے ۔ یہ طول قامت کی وجہ سے نہیں بلکہ عزّت، رفعت، عظمت اور حسن کی وجہ سے ہے اور یہ آپ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے ۔حضرت سماک بن حرب ‘حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت کرتے ہیں:”رسول کریم کشادہ دہن تھے‘ سُرخ وسفید آنکھ والے ‘پتلی ایڑیوں والے تھے۔کشادہ دہن :عرب ‘مردوں کے لئے‘ کشادہ د ہنی محبوب اور پسندیدہ سمجھتے اور تنگی دہن اُن کےلئے عیب تھا ۔بعض اِس سے فصاحت وبلاغت بھی مراد لیتے ہیں ۔
دیکھنے والوں نے کیسا دیکھا؟
حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں:نبی کریم نہ تو بہت دراز قد تھے اور نہ پست قد‘ بڑے سر انور والے اور بھری داڑھی شریف والے تھے۔ بھاری ہتھیلیاں (مبارک) اور بھارے قدم( مبارک) والے‘ سرخی مائل رنگ والے‘ بھاری جوڑوں والے‘ درازبالوں کی ڈوری جب چلتے تو قوت سے چلتے گویا آپ بلندی سے اُتر رہے ہیں حضرت علیؓ فرماتے ہیں میں نے آپ کی مثل نہ توآپ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ ہی آپ کے بعد دیکھا یعنی پہلے سے مراد وصال سے پہلے اور بعد سے مراد وصال کے بعد۔ آپ کے (نورانی) چہرہ (مبارک)میں قدرے گولائی تھی۔ رنگ سُرخی کی طرف مائل سفید تھا۔ (نورانی) آنکھیں (مبارک)خوب کالی ‘پلکیں لمبی‘ اور بھوویں بھاری ‘موٹی ہڈیوں والے‘ موٹے کندھوں والے‘ جسم مبارک صاف (روشن نورانی چمکتا ہوا)بالوں کی ایک باریک ڈوری سینے مبارک سے ناف مبارک تک‘ پرُ گوشت ہتھیلیاں اور پرُ گوشت قدم( مبارک) جب چلتے تو پوری طاقت سے چلتے گو یا آپ گہرائی میں اُتر رہے ہیں جب اِدھراُدھر توجہ فرماتے توپوری توجہ فرماتے۔ آپ کے دونوں (نورانی )کندھوں (مبارک) کے درمیان ”مہرِ نبوت“ تھی اور آپ خاتم النبیین ہیں لوگوں میںسب سے زیادہ سخی دل ‘ لوگوں میں بہت سچی با ت والے اور اُن میں نہایت نرم طبیعت والے اور اُن میں بہت اچھے برتاو¿ والے‘جوآپ کو اچانک دیکھتا تو آپ سے ہیبت کرتا اور جب آپ سے مل جل جاتا تو وہ آپ کو محبوب بنا لیتا ۔آپ کے چہرہ ¿مبارک میں رعب دبدبہ اور وقار کی جلو ہ گری تھی جو اچانک دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا۔ مگر اخلاقِ کر یمانہ ایسا تھا کہ چند روز نبی کے پاس رہتا تو آپ سے مانوس ہوجاتا ۔آج بھی جوآپ کے دربار انورمیں حاضر ہوتا ہے اُس کا وہا ں سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا۔ حتیٰ کہ وہاں سے آتے ہوئے آنکھوں سے میں آنسو جاری ہوتے ہیں۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں‘: میں نے رسول کریم سے زیادہ کسی کو حسین نہیںدیکھا گویا سورج اُن کے چہرے پر پھرتا تھا یعنی ایسا درخشاں اورتاباںاور کسی کو نہ دیکھا ۔میں نے اُن سے زیادہ چلنے والا گویا اُن کے لئے زمین لپیٹی جاتی تھی۔ہم اپنی جانوں کو مشقت میں ڈالتے تھے یعنی آپ کے ساتھ چلنے کو اور آپ بے پرواہ چلتے تھے۔
بے مثل نبی آخرالزماںﷺ
Sep 29, 2023