یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم المرسلینی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے ایسی بے پایاں رحمتیں حاصل ہوئیں جن کی گنتی کرنے سے اعدادوشمار کے آلات قاصر ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ”تم بہترین امت ہو“۔
یہ منفرد اعزاز بھی ختم نبوت کے مرہون منت ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سید الرسل اور خاتم الانبیاءہیں۔ آپ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامان اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کامیابی وکامرانی کا معیار، زینہ اور ضامن ہیں۔ ا±مت پر آپ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا، آپ سے محبت وعقیدت رکھنا، آپ کی تعظیم و توقیر، اطاعت وفرماں برداری اور آپ کی اتباع وپیروی شامل ہے۔
قرآن وحدیث میں ان حقوق وفرائض کی طرف امت کو مختلف انداز و اسلوب میں متوجہ کیا گیا ہے، صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حقوق کو اس طرح ادا کیا جیسے ان کو ادا کرنے کا حق تھا اور آپ پر ایمان ،محبت وعقیدت کا اظہار، آپ کی تعظیم وتوقیر، اطاعت و فرمانبرداری او راتباع وپیروی اس طرح کی جس کی نظیر نہ ماضی میں تاریخ کے اوراق میں ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں مل سکے گی ان کے ایمان وایقان، محبت و عشق و ایمانی جوش کی گواہی دینے پر غیر بھی مجبور تھے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود کفار کی طرف سے وکیل بن کر آئے اور حضرات صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال اوران کی آپ سے عقیدت ومحبت کا مشاہدہ کرتے رہے، جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گئے تو ان سے کہنے لگے: اے میری قوم! اللہ رب العزت کی قسم! میں بڑے بڑے عظیم بادشاہوں کے دربا ر میں گیا ہوں، مجھے قیصر، کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں، جیسے محمدﷺ کے اصحاب، محمد (ﷺ) کی تعظیم کرتے ہیں۔
خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب، کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے اور اسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے، جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو بلاتوقف اس کی تعمیل کی جاتی ہے، جب وہ وضو کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، آپ کے رفقاءآپ کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو انتہائی پست رکھتے ہیں اور غایت تعظیم کی وجہ سے آپ کے چہرے کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتے۔ (بخاری، مسند احمد)
رسول اللہ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جزو ہے اور محبت بھی ایسی جو انسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو۔ حاصل یہ ہے کہ آپ کا حکم ہر مسلمان کے لیے اپنے ماں باپ سے زیادہ واجب التعمیل ہے، اگر ماں باپ آپ کے کسی حکم کے خلاف کہیں، ا±ن کا کہنا ماننا جائز نہیں، اِسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ (معارف القرآن)
تمام صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم میں ایثار وقربانی اور جانثاری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا غرض جس صحابیؓ کی زندگی کا مشاہدہ کیجیے وہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور اسوہ کا عکس جمیل اور آپ کے عشق ومحبت میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے، حضرت مقدادؓ کا وہ جملہ ملا حظہ فرمائیے جو انہوں نے غزوہ بد رکے موقع پر آپ سے فرمایا تھا کہ:
”ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ: ”آپ اور آپ کا رب جائیں قتال کریں، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔“
بلکہ آپ قتال کا فیصلہ کیجیے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔“ (بخاری، مسند احمد)
صحابہ کرامؓ کا یہ جذبہ، تڑپ، ایثار وقربانی، جانثاری اور اللہ کے نبی کے ساتھ عشق ومحبت ان کے دنیا و آخرت دونو ں جہانوں میں کامیابی وکامرانی کا ذریعہ بنی۔ دنیا میں بھی فوزو فلاح نے ان کے قدم چومے اور آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل ہوں گے۔ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر رسول اللہﷺ کی اتباع وپیروی، اطاعت و فرمانبرداری، تعظیم اور عشق ومحبت کو اختیار کرکے دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل کرسکتے ہیںاس کے برعکس اسلام کا آفتاب جب سے طلوع ہوا ہے ایسے شقی لوگ بھی رہے ہیں جو پیغمبر علیہ السلام کی توہین کی ناپاک کوشش کرتے رہے اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنتی رہی، ابولہب اور ابوجہل سے لے کر جن جن لوگوں نے بھی شقاوت اور دریدہ وہنی کا ارتکاب کیا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے اور آخرت میں تو یقینا وہ ذلت ورسوائی میں سرتاپا ڈوبے ہوئے ہوں گے۔
حضور نبی کریم رحمة للعالمین خاتم النبیین نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ (بخاری) آپ نے ارشاد فرمایا:
”بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد اللہ عزوجل فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک مرتبہ درود شریف بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص (ایک مرتبہ) سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا“ (سنن نسائی شریف باب 775 فضل التسلیم علی النبی)
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے نبی کریم رحمتہ للعالمین امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔
٭....٭....٭
نبی کریم ﷺکا اسوہ حسنہ امت کیلئے مشعل راہ
Sep 29, 2023