”جائٰ رسول اللہ“۔” اللہ کے رسول“ تشریف لائے۔ چھوٹے چھوٹے بچے گلی کوچوں میں خوشی سے پھرتے۔ ج±ھومتے استقبالی گیت گا رہے تھے۔ خبر پہنچی تھی کہ ”یثرب“ میں ”حضور پ±ر نورصلی اللہ علیہ وسلم“ تشریف لانے والے ہیں۔ یہ ذکر ہے ا±س دور کا جب آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے۔ لوگوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ہر چیز راہ میں لٹا دینے۔ خود کو مٹا دینے کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ہر بوڑھا۔ بچہ۔ عورت۔ جوان راستے میں کھڑا منتظر تھا کہ کب آنکھیں ٹھنڈک سے سرفراز ہوتی ہیں۔ ہر شخص نے اپنی بساط کے مطابق جشن منایا۔ ہر کوئی میزبانی کے لیے بے قرار۔
یہ تو ایک شہر سے دوسرے شہر میں آمد مبارکہ تھی۔ جب ربِ رحمان نے اپنے ”حبیب۔ باعث تخلیق کائنات“ کو دنیا میں مبعوث فرمایا تو مشرق سے مغرب تک ہر شے۔ ہر ذرے کو نور حق سے روشن کر دیا۔ پہاڑوں کی بلند چوٹیاں چمک ا±ٹھیں۔ باطل۔ کفر کی ہر علامت۔ نشانی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ درخت۔ پرندے خوشیوں سے حمد پڑھنے لگے۔ حمد و ثنا میں پتھر بھی پیچھے نہ رہے کیونکہ کائنات کو ایک عظیم الشان۔ بے مثل تحفہ عطا فرمایا جارہا تھا۔ایسا انمول۔ قیمتی گرانقدر ہستی تشریف لا رہی تھیں۔ جن کا رتبہ۔ عظمت بیان کرنے لگیں تو سو زندگیاں کم پڑ جائیں۔ پوری دنیا کی سیاہی۔ قلم ختم ہو جائیں مگر ایک حرف مدح ثنائی کا حق بھی ادا نہ کر سکے۔ ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ
”اللہ تعالیٰ رحیم۔ کریم“ کے بعد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ذی شان نے نزول مبارکہ کے پر سعادت لمحہ پر پورے عالم کو رحمت۔ روشنی سے تاباں کر دیا تو ”سفر معراج“ پر بھی اپنے محبوب کے استقبال پر ساتوں آسمانوں کو نور سے منور فرما رکھا تھا۔
آج 12 ربیع الاول کا بیحد متبرک۔ مبارک دن ہے۔ دو ہفتہ قبل سے گلیاں۔ محلے۔ سٹرکیں برقی قمقموں۔ آرائشی اشیاءسے سجنا شروع ہوگئی تھیں۔ تجارتی مراکز سے رہائشی علاقوں تک اِک جوش۔ جشن کی کیفیت ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام میں ”آمد مبارکہ“ کی تقاریب جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
”محمد عربی۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ” کو اللہ تعالیٰ کریم نے باطل کو مٹانے واسطے مبعوث فرمایا۔ حق سچ کے بول بالا کے لیے دنیا میں بھیجا۔ مدینہ والوں نے اطاعت کا حق ادا کر دیا۔ جانساری۔ خدمت گزاری اور اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے سر کٹوا ڈالے۔ اِسی طرح رب کائنات کے آخری بنی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خالق کے احکامات۔ فرامین پر عمل در آمد میں جاں گسل لمحات۔ تکلیف دہ واقعات کو بھی سد راہِ نہ بننے دیا۔ ”آخری سانس مبارکہ“ تک اپنی ا±مت کے لیے د±عا فرماتے۔ آنسو بہاتے رہے۔ آنسو مبارکہ بخشش۔ عافیت کے لیے تھے اپنے لیے نہیں ہمارے لیے۔ ہم جو”ا±مت محمدیہ“ ہیں۔ ہم جو ا±ن کے ماننے والے ہیں۔ کبھی دو منٹ کے لیے بیٹھ کر سوچا کہ”بعثتِ نبوی“ کا مقصد کیا تھا؟ کیا محبت کے اظہار کے لیے ظاہری افعال کافی ہیں۔ ا±س دل کی صفائی ضروری نہیں جو ک±فر اور ا±س کی علامتوں کے بت کو سجائے ہوئے ہے۔ اکیلا قولی اقرار بچا پائے گا؟ جب عمل کا خانہ خالی ہے۔ جب نیت درست راستے سے بھٹکی ہوئی ہو۔ دماغ شیطانی افعال کے گرداب میں مبتلا ہو۔ ہم لاکھوں روپے چراغاں پر خرچ کرتے۔ پکوان بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔ کوئی برائی نہیں۔ محبت کے تمام مظاہر اچھے ہیں مگر عمل کے بغیر چراغ نہیں جلنے والا۔ ارادہ۔ عمل تیل ہیں۔ ڈالیں گے تو طاقچے روشن ہوں گے۔ ہم جو ”ان“ کے متوالے ہیں۔ جانثار کہلاتے ہیں۔ ک±فر کو رد کرنے کی بجائے کفار کے بازو بن گئے۔ یمن سے شام تک ایک آگ لگی ہے۔ حسد کی۔ قوم پرستی کی۔ ذاتی مفادات۔ اقتدار کی ہمیشہ کے لیے قبضہ کی جنگ کے ہولناک شعلوں کی تپش کفار کو نہیں صرف مسلمانوں کو جلا رہی ہے۔ ہمارے ہم دن۔ پیسے ہمارے۔ علاقے ہمارے۔ ہتھیاروں کی خرید بھی ذاتی پیسوں سے۔ واحد جنگ نہیں۔ دنیا میں جہاں بھی کفار نے فساد ڈلوایا۔ انسانوں کے سر سے لیکر وسائل تک ا±مت ِ مسلمہ کے استعمال ہوئے۔ د±کھ والے مناظر ہیں۔ دشمن قوتوں کی صرف منصوبہ بندی استعمال ہوتی ہے۔ اسلحہ ساز فیکٹریاں چلتی ہیں وہ ہر دو طرف سے ساہو کار روپیہ سمیٹتے ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی پ±وری ا±مت کے اشرافیہ کی دولت یورپی تجوریوں میں محفوظ ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہم کچھ بھی کر لیں وہ ہرگز رام نہیں ہونگے حتیٰ زیرنگین ممالک کی چابیاں بھی ا±ن کے حوالے کرنے سے سازشیں۔ جنگیں۔ افراتفری نہیں ر±کنے والی۔ کیونکہ اصل معاملہ ”ایمان“ کا ہے۔ جب تک ایک بھی شخص میں ایمان کی رمق باقی ہے تب تک امت کا کڑا وقت چلتا رہے گا۔ کتنا اچھاہوتا کہ ہم اپنے وسائل اپنی حیات کے شب و روز کو ”خالق کائنات“ کی فرما نبرداری احکامات کی تعمیل پر صرف کرتے تو آج یوں گا جر مولی کی طرح کٹ نہ رہے ہوتے۔ کیا حرمت سے زیادہ عارضی دنیا کے مٹی گارے کے بنے گھروں کی نعوذ باللہ اہمیت ہے؟
قارئین۔ انسانی وجود کی قدر اس مٹی سے بھی کم ہے جو بوقت دفن قبر کھود کر نکالی جاتی ہے۔ خالی گڑھا بھی خالی نہیں رہتا۔ مٹی کی جگہ انسانی گوشت کے پیکر کو اندر ڈال دیا جاتا ہے اس مٹی کی جگہ پر کرنے کے لیے جو تدفین واسطے نکالی گئی تھی۔ پھر وہ وجود بھی مٹی بن جاتا ہے صرف اعمال کام آئیں گے۔ نیک اعمال۔ پے در پے معافیاں۔ رجوع۔ صرف جان کے لالے پڑنے پر کیوں؟ جبکہ جانتے ہیں انسان کا عمل مردہ کرتا ہے یا زندہ رکھتا ہے۔ جس ”دین“ کی اندھا دھند تقلید بنتی ہے اس کی بجائے دنیاوی بتوں کی ؟ اِتنی غفلت۔ قصداً کو تاہیاں۔ ”اللہ تعالی غفور الرحیم“ سے دست بستہ فریاد کناں ہیں کہ وہ ہم سب کو ہمیشہ کے لیے معاف فرما کر بخش دیں آمین۔ دعاگو ہوں کہ اپنے ”نبی رحمت“ کی اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق۔ ہمت عطا فرما کر ایمان اور عقیدہ توحید کی مضبوطی کے ساتھ خاتمہ بالخیر فرمائیں آمین۔ پاکستان زندہ باد۔
٭....٭....٭