وہ ایک رات چراغاں ہوا زمانے میں

 اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ ذات ِخداوندی کی فرستادہ ان مقدس ہستیوں کی زندگی کا مقصد اللہ کے پیغام کو اس کی منشاکے مطابق کھول کھول کربیان کردیناتھا۔شقی القلب انسانوں نے ان برگزیدہ لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا، ان واقعات کی تفصیل تاریخ ِ عالم میں محفوظ ہے۔ کسی کوگردن زدنی ٹھہرایاگیا،کسی کے جسم کوآرے سے چیردیا گیا۔کسی کو اس کے وطن سے ہجرت پرآمادہ کردیاگیا تو کسی کو قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔مجال ہے جو ان پاکیزہ ہستیوں کے مقصدِ زندگی میں ذرا سی لغزش بھی آئی ہو۔انبیا ورسل کی بعثت کی انھی سرمدی بہاروں کا فیضان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔آپ کے ساتھ ہی نبوت کا سلسلہ بھی موقوف ہوا۔علامہ محمداقبال اپنے خطبات میں کہتے ہیں کہ” جب تک انسان فکری طور پربالغ نہ تھا،نبوت کا سلسلہ جاری رہا۔جب اس کی ذہنی بلوغت کی تکمیل ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے یہ سلسلہ موقوف کردیا گیا۔یوں آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واسلم جدید اورقدیم زمانے کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت رکھتے ہیں“۔ایسی مقدس ومتبرک ہستی کا ظہور کسی جانفزا مڑدے سے کم نہیں۔تاریخ عالم ابھی تک ولادت رسول کے ثمرات واثرات کا مکمل جائزہ نہیں لے سکی۔حضرت محشر بدایونی کا ایک شعر ہے:
وہ ایک رات چراغاں ہوا زمانے میں
ہوابھی ہوگئی شامل دیے جلانے میں 
یہ ایک المیہ ہے کہ دنیاایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ورسل کے کاموں توکیا،ا±ن کے ناموں کوبھی محفوظ نہیں رکھ سکی۔بلاشبہ اِس کی ذمہ دار وہ اقوام ہیں جن میں ا±ن نبیوں کو بھیجا گیا۔انھوں نے اپنے رسولوں کی شریعت کی حفاظت توکیاکرنی تھی، ان کے ناموں کو بھی فراموش کردیا۔یورپ جو خود کو علم ودانش کا منبع ومرکز قرار دیتا ہے۔اس کو آئینہ دکھانے کے لیے یہی ایک طعنہ کافی ہے کہ( آیات ربانی کے مطابق)دیگراقوام کی طرح اہل یورپ کی اصلاح وفلاح کے لیے بھی نبی بھیجے گئے ہوں گے۔لیکن انھوں نے ان کے ساتھ ہونے والے میثاق کو پورا نہ کیا اوران کی شریعتوں کی حفاظت نہ کرسکے۔ یورپ آج خود کو سائنسی لحاظ سے جتنا بھی اہم تصور کرلے، اسے روحانیت کے فقدان کوپورا کرنے کے لیے بہرحال مشرقی اقوام کے دروازے پرہی صدالگانی پڑے گی۔اللہ نے مسلمانوں کو یہ سعادت بخشی ہے کہ انھوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے علاوہ ان کی زندگی کے ایک ایک عمل کوروایت ودرایت کے اصولوں کی روشنی میں پرکھ کر احادیث کی صورت میں محفوظ کرلیا۔آج کی انسانیت کی فلاح سیرت صادقہ کی طرف رجوع کرنے میں پنہاں ہے۔اللہ رب العزت نے آپ کے ذکروفکرکودوام بخشا ہے۔اس کے اثرات زندگی کے ہرشعبے میں محسوس ہوتے ہیں۔عربی ادب میں جاہلی شاعری کا چرچا تھا۔ بعثت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد شعروسخن کی سبھی توجہات کا رخ آپ کی ذات گرامی کی طرف ہوگیا۔یہاں تک کہ اس کے لیے ”مخضرم“کی باقاعدہ اصطلاح وجود میں آئی۔شمائل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعر وسخن کا پسندیدہ موضوع بنا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک شعر کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ” زنان ِمصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور ان کے حسن میں محو ہوکر بے ساختہ اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔اگر وہ سرور انبیاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیکھ لیتیں تو خدا کی قسم بے اختیار اپنے دل چاک کرلیتیں“۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے عالم کے لیے سراپا رحمت بن کرتشریف لائے۔آپ مخلوق میں سب اعلیٰ وارفع مقام پر فائز ہیں۔ بارگاہ ِ خدا وندی میں مقرب ومقبول ہونے کے باوصف آپ محبوب دلبراں ہیں۔آپ کے مقام کی مرتبہ دان صرف اللہ کی ذات ہے۔ سیدعلی بن عثمان الہجویری ” کشف المحجوب “ میں لکھتے ہیں کہ ”موسیٰ علیہ السلام نے دیدار الٰہی کی خواہش ظاہر کی،لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے،کوہ طورپر ان کے ساتھ نورخداوندی کی تجلیوں نے جل کر کوئلہ بن گئے،موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اس خواہش کا اظہارنہیں کیا لیکن ایک ہی رات میں مکہ سے براستہ بیت المقدس معراج کے ذریعے سدرة المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے“۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کا ذائقہ چکھنے کی پاداش میں باغ عدن سے زمین پر بھیجا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تمام انسانیت کا عروج ہے کہ اس سے آدم کو ہزاروں برس پہلے کا کھویا ہوامقام دوبارہ مل گیا۔ ولادت رسول تمام انسانوں کے لیے ایک نعمت عظمیٰ ہے۔
بندگی کا تقاضا ہے کہ حصول نعمت کے موقع پرشکر بجالایا جائے۔جب نعمتوں کی فراہمی پر تشکر کی کیفیت پیدانہ ہوتو یہ چھین لی جاتی ہیں۔اس لیے ولادت رسول کے مہینے میں پروقار انداز میں اظہار مسرت نہ کرنا کفران ِ نعمت ہے۔اس سلسلے میں علمی وروحانی مجالس کا انعقاد ضروری ہے۔
۔موجودہ دور کاتقاضا ہے کہ مسلمان اپنی دینی مجالس کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں سماجی ومعاشرتی بھلائی کے لیے استعمال کریں۔ ان کے لیے ضروری ہے اپنی عبادت گاہوں کے منبروں سے بداخلاق اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کودور رکھیں۔مالی منفعت کے لیے امت کو تقسیم کرنے کا عمل مذمت کے قابل ہے۔علمائے کرام کے لیے ضروری ہے کہ اپنی روحانی محافل میں عام مسلمانوں کو اخلاق وآداب اورعبادات ومعاملات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترغیب بھی دیتے رہیں۔انسانی فلاح وبہبود کے کاموں میں دل لگانے کی تلقین کریں۔آخرمیں ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے پیرنصیرالدین نصیر گولڑہ شریف کا ایک شعر دیکھیں:
دست ِ قدرت ! ترے اس حسنِ نگارش پہ نثار
نام وہ لوح پہ لکھا کہ قلم توڑ دیا
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن