جشن ولادت محمدپر اقلیتی برادری کیلئے ایک عزم باندھیں

ایک وقت تھا کہ پاکستان میں مذہبی منافرت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔ لیکن آج کل حالات بہت نازک موڑ پر آ چکے ہیں۔ دوسری جانب توہین مذہب کے نام پر ملک دشمن عناصر بڑی مستعدی کے ساتھ سرگرم ہیں۔ کس نے توہین کی۔۔۔ کیوں توہین کی۔۔۔توہین کے محرکات و اسباب کیا تھے۔۔۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ایک نے کہا توہین ہوئی ہے باقی سب اس کے پیروی میں مجاہد بن جاتے ہیں۔ حالانکہ خبر کی تصدیق کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس نے خبر پھیلائی ہے کیا وہ عاقل ہے۔۔۔اسے ضبط کامل بھی حاصل ہے کہ نہیں ؟؟؟ 
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ تعصب کی عینک لگا کر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کبھی دلوں میں جاگزین نہیں ہوئے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیتی برادری کے ساتھ حسن معاشرت کی ترغیب و ترہیب مسلم امہ کو دلوائی۔ پھر تو اس میں قیل قال کی کوئی حجت ہی باقی نہیں رہتی۔اقلیتی برادری میں سے کسی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا، اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے جیسا کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا کرنا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بنیادی انسانی حقوق کا منشور اعظم پیش کر دیا۔
اب چلیے مزید انٹرنیشنل ریلیشنز پر ہی بات کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم ¿ کی خدمت میں آتے ان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود میزبانی فرماتے چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی۔ سیرت النبی از ابن ہشام ودیگران نے حضور کے وفود کے ساتھ گفت و شنید ، معاہدات کو اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔ مشہور مستشرق منٹگمری واٹ (Montgomery Watt) اعتراف کرتا ہے کہ:"عیسائی، عرب مسلم حکمرانوں کے دورِ اقتدار میں بطور غیر مسلم شہری اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے سے زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے.؟
خلفائے راشدین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر مکمل عمل پیرا ہو کر فقید المثال اسلامک سوسائٹی ترتیب دی۔ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: ”تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو۔“ اس نے جواب دیا: ”میں یہودی ہوں۔“ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: ”گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔“ یہودی نے کہا: ”ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیرانہ سالی کے مصائب کی وجہ سے۔“ 
حضرت عمرؓ یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لائے اور جو موجود تھا، اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو اقلیت سے نرم خوئی اور ہر طرح کے تعاون کی ہدایات جاری کیں کہ ضرورت مند غیر مسلموں کی تفتیش کرو۔حضرت عمرؓ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔ یورپ آج بھی عمرلاز کو فالو کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم نہیں۔
اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ توہین کے نام پر کسی کی پراپرٹیز و املاک کو ڈنڈے مار مار کر توڑ دیا جائے، ان کے بچوں کے سامنے ان کے والدین پر سب وشتم کی روایت قائم کی جائے۔۔۔ ہرگز نہیں۔ یا حقارت کی بنا پر یہ کہنا کہ ارے یہ تو غیر مسلم ہیں۔نبی کے امتی یاد رکھیں کہ دین میں جبر نہیں۔ اللہ پاک کے راز اللہ ہی جانے۔ اگر اللہ کریم چاہتے تو کل کا کل عالم مسلم ہوتا۔ خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو بطور "پزل " رکھا کہ غوروفکر کرو اور" ڈے آف ججمنٹ" پہ فیصلہ پینڈنگ رکھ دیا کہ تم میں سے کون اچھے عمل( حقوق العباد کو بجا لانا) کرتا ہے۔
 خدارا تالیف قلب(دل موہ لینا، مائل کرلینا) کی غرض سے ان کے لیے اپنے ہاں "سافٹ کارنر" رکھیے۔ اگر پھر بھی معاملہ بدستور برقرار رہے تو تحقیق و تفتیش کے بعد انہیں قانون کے حوالے کر دیجئے۔ غیر مسلم کمیونٹی کو بھی چاہیے کہ کسی بھی پروپیگنڈہ کا حصہ نہ بنیں کیونکہ مسلمان اپنے ماں باپ، مال، اولاد سب سے زیادہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز رکھتے ہیں۔ تاقیامت ان کی حرمت پر جانیں نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اکثریت و اقلیت کے مابین حالات کی سنگینی تب تک برقرار رہے گی جب تک اکثریت کا مطالعہ سیرت وسیع نہیں ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن