ا±م رسول، سیّدہ کائنات، پیکرِ عفت و عصمت، معدن آبروئے مخدراتِ عالم نسوانیت 12ربیع الاول کے حوالے سے حضرت سیّدہ بی بی آمنہؓ کے نام جن کی گود سرورِ کشورِ رسالت کی جلوہ گاہ بنی، جن کی خدمت کو حضرت آسیہؓ اور حضرت مریمؓ آئیں، جن کی چاکری کے لیے حورانِ خلد حق غلامی بجا لائیں، جن کے جسدِ معظم نے خاک ابوا کو رشکِ قمر کر دیا، جن کی بدولت ماں کا پاکیزہ رشتہ جمال وکمال کی عظمتوں سے مالا مال ہوا اور جنت ماں کے قدموں میں آئی!!
ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے مگر اپنے اندر کل کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور حکم فرمایا آپ کے رب نے کہ نہ عبادت کرو بجز ا±س کے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر بڑھاپے کو پہنچ جائے تیری زندگی میں ا±ن دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں تو ا±نہیں ا±ف تک مت کہو اور ا±نہیں مت جھڑکو، اور جب ا±ن سے بات کرو تو بڑی تعظیم سے بات کرو اور جھکا دو ا±ن کے لیے تواضع و انکسار کے پر رحمت و محبت سے اور عرض کرو، اے میرے پروردگار! اِن دونوں پر رحم فرما جس طرح ا±نہوں نے (بڑی محبت و پیارسے) مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔ (بنی اسرائیل:23،24)
ماں باپ کے لیے برابر دعا کرتے رہیے اور ان کے احسانات کو یاد کر کے رب کے حضور گڑگڑائیے اور انتہائی دل سوزی اور قلبی جذبات کے ساتھ ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کیجئے۔ جب بھی فارغ وقت ملے تو اپنے والدین کے پاس جا کر بیٹھ جایا کریں کیونکہ والدین کے ساتھ گزرا ہوا وقت قیامت کے دن نجات کاباعث بنے گا۔ والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ اولاد تہہ دل سے ان کے ساتھ محبت کرے۔ رفتار و گفتار میں نشست و برخاست میں تعظیم ملحوظ رکھے۔ ان کی شان میں تعظیمی کلمات ادا کرے، انہیں راضی اور خوش رکھنے کی سعی کرے۔ اپنے عمدہ مال کو ان پر خرچ کرے، ان کی حکم عدولی نہ کرے۔ انہیں کسی طرح رنج نہ پہنچائے۔ اگر وفات پا جائیں تو ا±ن کے لیے مغفرت کی د±عائیں کرے، صدقات دے جیسا کہ حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس شخص کاکیا نقصان ہے جو ماں باپ کے نام سے صدقہ دے تاکہ ا±ن کو ثواب ملے اور اس کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہ ہو۔“
حضرت ابوبکرصدیقؓ روایت کرتے ہیں کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ فرمایا:اے صحابہ کرام! (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کیا میں تمہیں بتاﺅں کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کی ہاں! یارسول اللہ! ضرور ارشاد فرمائیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرناہے۔ (صحیح بخاری) حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؓ نے ارشاد فرمایا: اگرکسی آدمی کے ماں باپ (یا دونوں میں سے کوئی ایک) انتقال کر جائیں اور وہ ان کی زندگی میں نافرمان رہا (پھر اس کو ہوش آگیا) تو وہ برابر ان کے حق میں دعا کرتا اور ان کی بخشش کی استدعا کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو والدین کا فرمانبردار قرار دے کر نافرمانی کے وبال سے بچالے گا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کہ ہے کہ حضور نبی کریمؓ نے ارشاد فرمایاکہ میں جنت میں گیا تو اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ حارثہ نعمانؓ ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ یاد رہے کہ حضرت حارثہؓ اپنی والدہ کی بہت خدمت کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک شخص کا درجہ بلندکیاجائے گا اور دریافت کرنے پر اسے بتایا جائے گا کہ یہ درجہ تمہاری اولاد کے تمہارے لئے دعائے مغفرت کرنے کے باعث بلند ہوا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہوکہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے اور ان پر صلہ رحمی کرے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں کبھی نماز شروع کرتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز کو طویل کردوں لیکن پھرکسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصرکر دیتا ہوں کیونکہ میں جانتاہوں کہ (نماز میں شریک) ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہرجمعہ کو والدین کی یا ان میں سے کسی کی قبرکی زیارت کرتا ہے تو اسے کی مغفرت کردی جاتی ہے اور اسے والدین کا فرمانبردار لکھ دیاجاتاہے۔
حضور سرورکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بطن مطہر سے جنم لیا اور چھ سال کی عمر تک ان کی آغوش میں پلے بڑھے۔ اس لحاظ سے ام رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدہ بی بی آمنہؓ تمام خواتین عالم میں امتیازی مقام رکھتی ہیں۔ غزوہ بدر سے پہلے حضور رسالت مآب ﷺ صحابہ کرام کی معیت میں غزوہ ابوا کےلئے آئے تو غزوہ سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ سے اپنی والدہ سیدہ آمنہؓ کی قبرکی زیارت کا اذن پایا۔ آپ ابواکے اس مقام پر تشریف لائے جہاں آپ کی والدہ ماجدہ مدفون تھیں۔ والدہ کے قدموں میں آتے ہی حضور علیہ الصلوة السلام پر رقت طاری ہوگئی، مبارک آنکھوں سے آنسوﺅں کا سیلاب بہہ نکلا جسے دیکھ کر بے اختیار صحابہ کرامؓ بھی رو دیے۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا۔ یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی آنکھوں میں آنسو؟ یعنی آپ تو فرمایا کرتے ہیں کہ مرنے والوں پر رونا نہیں چاہیے اور اب ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟ کہ آپ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک، بہادر اور جری انسان کی آنکھیں بھی نمناک ہیں۔ اس پر حضور علیہ الصلوة السلام نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ محبت کے آنسو ہیں یعنی یہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت واحترام ہے۔ ان آنسوﺅں کی کم حوصلگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو محبت کا بے ساختہ اظہارہیں جو اس حرم محترم میں حاضری کا خراج عقیدت ہے۔ یہ ماں کے ان قدموں میں جن کے نیچے جنت ہوتی ہے گلہائے عقیدت کے طور پر آنسوﺅں کا گلدستہ ہے۔