معزز قارئین ! ہر مسلمان کے لئے پیغمبر انقلاب رحمت للعالمین اور خاتم ا±لنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم سے عقیدت اور محبت کے جذبات اپنے اپنے انداز میں ہوتے ہیں ، خاص طور پر شعرا کے لئے مختصراً بیان کرتا ہ±وں کہ ”میرے آباءاجداد صدیوں سے راجستھان کے علاقہ اجمیر میں آباد تھے جنہوں نے خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند، حضرت معین ا±لدّین چشتی کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا، پھر ہمارا قبیلہ ہندوستان کے مختلف صوبوں، شہروں اور دیہات میں پھیل گیا۔ مَیں 12 ربیع الاوّل 1366ہجری (جنوری 1947ئ) کے دِن سِکھوں کی ریاست نابھہ میں، ”دو قومی نظریہ کے علمبردار“ مسلمان عید میلاد ا±لنبی منانے کے لئے گھوڑوں، اونٹوں ، بیل گاڑیوں پر چڑھ کر اور پیدل بھی ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں ہندوﺅں اور سِکھوں پر دباﺅ ڈالتے ہ±وئے دِکھائی دے رہے تھے۔ میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان میرے دو چچاﺅں رانا فتح محمد چوہان اور رانا عطاءمحمد چوہان کے ساتھ ا±س جلوس میں شامل تھے اور مَیں بھی۔ مَیں ا±س وقت چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ”میرے بڑے چچا سمیت جلوس میں شامل نوجوانوں نے عربی لباس پہن رکھے تھے اور سر پر رومال اور عقال باندھا ہ±وا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ”نعت خوان حضرات بڑی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے مختلف نعت ہائے رسول سے جلوس کو گرما رہے تھے۔ ایک نظم کا مطلع آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ ....
”سارے جگ توں نرالیاں دبدیاں نَیں،
مدنی سرکار دِیاں گلیاں!‘
....O....
جلوس کے اختتام کے بعد میرے بڑے چچا نے مجھے اور جلوس کے کچھ دوسرے نوجوانوں کو بتایا کہ ”عربی لباس پہننے سے بہت ثواب ملتا ہے، کیونکہ عربی لباس ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور ا±ن کے ساتھی (صحابہ کرام) بھی پہنتے تھے!“۔ پھر کیا ہ±وا؟ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مشرقی (اب بھارتی) پنجاب میں سِکھوں نے پنجابی بولنے والے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور 50 ہزار مسلمان خواتین کو بے آبرو کردِیا تھا۔ سِکھ ریاستوں، نابھہ اور پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں سِکھوں سے لڑتے ہ±وئے ہمارے خاندان کے 26 افراد شہید ہوگئے تھے۔
” پاک پنجاب میں! “
معزز قارئین! قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان، میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک ، پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوگیا تھا۔ میرے والد صاحب کی کتابوں کی دکان تھی۔ مَیں ا±ن دِنوں نویں جماعت میں تھا، جب تحریک پاکستان کے دو بزرگ ( میرے والد صاحب کے دوست) چودھری نذیر حسین اور بابا قاسم منیار ا±ن کی دوکان پر ہر روز محفل جمانے لگے۔ چودھری نذیر حسین مجھے فارسی پڑھایا کرتے تھے اور بابا قاسم منیار اپنی س±ریلی آواز میں پنجاب کے صوفی شاعروں کا کلام س±نایا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب نے مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جانا شروع کِیا۔
محفل کے اختتام سے پہلے جب اہل محفل انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ کھڑے ہو کر نعت خواں حضرات کے ساتھ مل کر بلند آواز سے سرکارِ دو عالم کی خدمت میں سلام پیش کرتے تو مجھے کئی بار یوں محسوس ہوا کہ گویا حضور پ±ر ن±ور محفل میں تشریف لے آئے ہیں۔ مَیں نے 1956ئمیں میٹرک پاس کِیا تو اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے روزنامہ میں شائع ہ±وئی۔ ا±س کے بعد مَیں اردو اور پنجابی میں شاعری تو کرتا رہا لیکن، مجھے دوسری نعت کہنے /لِکھنے کی توفیق ہوتی رہی۔ 1960ءمیں مَیں نے مسلک صحافت اختیار کِیا جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے۔ فائنل کا طالبعلم تھا۔ فروری 1964ءمیں جناب مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار مقرر کِیا، پھر مَیں لاہور شفٹ ہوگیا۔ 1991ءمیں مَیں نے ”نوائے وقت“ میں کالم شروع کِیا اور پھر میرے کئی دَور رہے۔ آج بھی وہی دَور ہے۔
”برکات ِ خواجہ غریب نواز!“
معزز قارئین ! مجھے میرے والد صاحب نے بتایا تھا کہ ”ہمارے آباو اجداد کا تعلق بھارت کے موجودہ صوبہ ہریانہ کے شہر اجمیر سے تھا جہاں 1193ءمیں ”نائب رسول فی الہند“ خواجہ غریب نواز حضرت معین ا±لدّین چشتیؓ کے دست ِ مبارک پر ا±نہوں نے اسلام قبول کِیا تھا۔
مَیں نے 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا اور 1969ءمیں سرگودھا سے لاہور شِفٹ ہوگیا تھا۔11 جولائی 1973ءکو مَیں نے اپنا روزنامہ ”سیاست“ لاہور جاری کِیا۔
1980ءکے اوائل میں میرے خواب میں خواجہ غریب نواز میرے گھر رونق افروز ہ±وئے۔آپ نے میری طرف م±سکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہ±وا تھا اور جب مَیں نے ا±ٹھ کر ا±ن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ م±سکراتے ہ±وئے غائب ہوگئے۔ آنکھ ک±ھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور ا±ن سے پانی مانگا۔ ا±نہوں نے کہا کہ ”ہمارے بیڈ روم میں تو خ±وشبو پھیلی ہوئی ہے؟“۔ پھر خواجہ غریب نواز کی برکت سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے ک±ھل گئے۔
مَیں نے ستمبر 1983ءمیں خواب میں دیکھا کہ ”مَیں ایک دلدل میں پھنس گیا ہ±وں میرا جسم دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ اچانک میرے م±نہ سے ”یاعلیؓ!“ کا نعرہ بلند ہ±وا۔ مجھے یوں محسوس ہ±وا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر ا±تار دیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے بتایا کہ ”ت±م پر مولا علیؓ کا سایہ شفقت ہے!“۔
معزز قارئین!۔ مَیں 1956ءسے لے کر آج تک ماشاءاللہ کئی نعت ہائے رسول مقبول، آئمہ اطہار، اولیائے کرام اور خاص طور پر اپنے جدّی پشتی پیر م±رشد خواجہ غریب نواز کے لئے منقبتیں لکھ چکا ہوں لیکن کل کے کالم میں ( یوم عید میلاد ا±لنبی ) پر مجھے ”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے ستمبر 1991ءمیں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے ر±کن کی حیثیت سے خانہ کعبہ داخل ہونے کی سعادت حاصل ہ±وئی تھی، مَیں اکثر بیان کرتا ہ±وں کہ ”یقینا اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا؟ کل کے کالم میں آپ دیکھیں گے کہ مجھے اپنے دو پاکستانی صحافیوں کے ساتھ مدینہ شریف میں، کس طرح ”مدنی سرکار دِیاں گلیاں “ دیکھنے کا شرف حاصل ہ±وا تھا؟
............................(جاری ہے )
ہمارے نبیﷺ کی ماں کےلئے محبت
ا±م رسول، سیّدہ کائنات، پیکرِ عفت و عصمت، معدن آبروئے مخدراتِ عالم نسوانیت 12ربیع الاول کے حوالے سے حضرت سیّدہ بی بی آمنہؓ کے نام جن کی گود سرورِ کشورِ رسالت کی جلوہ گاہ بنی، جن کی خدمت کو حضرت آسیہؓ اور حضرت مریمؓ آئیں، جن کی چاکری کے لیے حورانِ خلد حق غلامی بجا لائیں، جن کے جسدِ معظم نے خاک ابوا کو رشکِ قمر کر دیا، جن کی بدولت ماں کا پاکیزہ رشتہ جمال وکمال کی عظمتوں سے مالا مال ہوا اور جنت ماں کے قدموں میں آئی!!
ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے مگر اپنے اندر کل کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور حکم فرمایا آپ کے رب نے کہ نہ عبادت کرو بجز ا±س کے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر بڑھاپے کو پہنچ جائے تیری زندگی میں ا±ن دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں تو ا±نہیں ا±ف تک مت کہو اور ا±نہیں مت جھڑکو، اور جب ا±ن سے بات کرو تو بڑی تعظیم سے بات کرو اور جھکا دو ا±ن کے لیے تواضع و انکسار کے پر رحمت و محبت سے اور عرض کرو، اے میرے پروردگار! اِن دونوں پر رحم فرما جس طرح ا±نہوں نے (بڑی محبت و پیارسے) مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔ (بنی اسرائیل:23،24)
ماں باپ کے لیے برابر دعا کرتے رہیے اور ان کے احسانات کو یاد کر کے رب کے حضور گڑگڑائیے اور انتہائی دل سوزی اور قلبی جذبات کے ساتھ ان کے لیے رحم و کرم کی درخواست کیجئے۔ جب بھی فارغ وقت ملے تو اپنے والدین کے پاس جا کر بیٹھ جایا کریں کیونکہ والدین کے ساتھ گزرا ہوا وقت قیامت کے دن نجات کاباعث بنے گا۔ والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ اولاد تہہ دل سے ان کے ساتھ محبت کرے۔ رفتار و گفتار میں نشست و برخاست میں تعظیم ملحوظ رکھے۔ ان کی شان میں تعظیمی کلمات ادا کرے، انہیں راضی اور خوش رکھنے کی سعی کرے۔ اپنے عمدہ مال کو ان پر خرچ کرے، ان کی حکم عدولی نہ کرے۔ انہیں کسی طرح رنج نہ پہنچائے۔ اگر وفات پا جائیں تو ا±ن کے لیے مغفرت کی د±عائیں کرے، صدقات دے جیسا کہ حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس شخص کاکیا نقصان ہے جو ماں باپ کے نام سے صدقہ دے تاکہ ا±ن کو ثواب ملے اور اس کے ثواب میں بھی کچھ کمی نہ ہو۔“
حضرت ابوبکرصدیقؓ روایت کرتے ہیں کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ فرمایا:اے صحابہ کرام! (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کیا میں تمہیں بتاﺅں کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے۔ صحابہؓ نے عرض کی ہاں! یارسول اللہ! ضرور ارشاد فرمائیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرناہے۔ (صحیح بخاری) حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؓ نے ارشاد فرمایا: اگرکسی آدمی کے ماں باپ (یا دونوں میں سے کوئی ایک) انتقال کر جائیں اور وہ ان کی زندگی میں نافرمان رہا (پھر اس کو ہوش آگیا) تو وہ برابر ان کے حق میں دعا کرتا اور ان کی بخشش کی استدعا کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس آدمی کو والدین کا فرمانبردار قرار دے کر نافرمانی کے وبال سے بچالے گا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کہ ہے کہ حضور نبی کریمؓ نے ارشاد فرمایاکہ میں جنت میں گیا تو اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا یہ حارثہ نعمانؓ ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ یاد رہے کہ حضرت حارثہؓ اپنی والدہ کی بہت خدمت کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک شخص کا درجہ بلندکیاجائے گا اور دریافت کرنے پر اسے بتایا جائے گا کہ یہ درجہ تمہاری اولاد کے تمہارے لئے دعائے مغفرت کرنے کے باعث بلند ہوا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہوکہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے اور ان پر صلہ رحمی کرے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں کبھی نماز شروع کرتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز کو طویل کردوں لیکن پھرکسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصرکر دیتا ہوں کیونکہ میں جانتاہوں کہ (نماز میں شریک) ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہرجمعہ کو والدین کی یا ان میں سے کسی کی قبرکی زیارت کرتا ہے تو اسے کی مغفرت کردی جاتی ہے اور اسے والدین کا فرمانبردار لکھ دیاجاتاہے۔
حضور سرورکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بطن مطہر سے جنم لیا اور چھ سال کی عمر تک ان کی آغوش میں پلے بڑھے۔ اس لحاظ سے ام رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدہ بی بی آمنہؓ تمام خواتین عالم میں امتیازی مقام رکھتی ہیں۔ غزوہ بدر سے پہلے حضور رسالت مآب ﷺ صحابہ کرام کی معیت میں غزوہ ابوا کےلئے آئے تو غزوہ سے فارغ ہوکر اللہ تعالیٰ سے اپنی والدہ سیدہ آمنہؓ کی قبرکی زیارت کا اذن پایا۔ آپ ابواکے اس مقام پر تشریف لائے جہاں آپ کی والدہ ماجدہ مدفون تھیں۔ والدہ کے قدموں میں آتے ہی حضور علیہ الصلوة السلام پر رقت طاری ہوگئی، مبارک آنکھوں سے آنسوﺅں کا سیلاب بہہ نکلا جسے دیکھ کر بے اختیار صحابہ کرامؓ بھی رو دیے۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا۔ یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کی آنکھوں میں آنسو؟ یعنی آپ تو فرمایا کرتے ہیں کہ مرنے والوں پر رونا نہیں چاہیے اور اب ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟ کہ آپ جیسے مضبوط اعصاب کے مالک، بہادر اور جری انسان کی آنکھیں بھی نمناک ہیں۔ اس پر حضور علیہ الصلوة السلام نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ محبت کے آنسو ہیں یعنی یہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت واحترام ہے۔ ان آنسوﺅں کی کم حوصلگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو محبت کا بے ساختہ اظہارہیں جو اس حرم محترم میں حاضری کا خراج عقیدت ہے۔ یہ ماں کے ان قدموں میں جن کے نیچے جنت ہوتی ہے گلہائے عقیدت کے طور پر آنسوﺅں کا گلدستہ ہے۔