غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا



 عرب کے وہ ریگستان جہاں ظلم وستم اپنے عروج پر تھا کوئی مربوط شکل میں تھا شہری مملکت مکہ جیسی ریاست کا وجود تو تھا لیکن انصاف کی فراہمی نا پید تھی عورتوں کو کوئی مقام حال نہیں تھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور جدید ملت اسلا میہ کا تصور چونکا دینے والا تصور چونکا دینے والا تصور تھا جس میں تکریم انسانیت پر زور دیاگیا تھا مذہب اسلام کاسارے کا سارا فلسفہ انسانیت کی تکریم اور عزت نفس کے گرد گھومتا ہے دنیا میں جہاں جہاں گئے اسی نظریہ کو لے کر گئے اور فتح حاصل کی محمد بن قاسم تین ہزار لوگوں کو اپنے ساتھ لے کرگیا تھا آگے چل کر اس کا مقابلہ راجہ داہر تھا راجہ داہر کو کسی نجومی نے بتایا تھا کہ تیری حکوت کا خاتمہ ایک انصاف پسند شخص کے ہاتھوں سے ہوگا جو غلامی سے زیادہ آزادی پر یقین رکھتا ہے جب اس نے مخمد بن قاسم کی آمد کے بارے میں سنا تو ?عظیم لشکر تیا کرنے کا تھا محمد بن قاسم کے پاس لوگوں کا دل جیتنے اور انہیں امان دینے کا ایک مضبوط نظریہ تھا اور یہ تصور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر دیا
جو تلوار بھینک دے اسے امان ہے
مظلوموں پر ظلم نہ کرنا
عورتوں اور بچوں کو غیط وغضب اور تلوار کا نشانہ نہ بنانا 
جو من چاہے اسے امن دینا
 سراندیپ کے راجہ نے تحفے تحائف اور بہت سی غلام عورتوں کو ایک بحری بیڑے کے ذریعہ مسلمانوں کی طرف بھیجا تو بحری بیڑے کو دیبل کے مقام پر بحری قزاقوں نے لوٹ لیا اس پر ایک عورت چلائی اے حجاج میری مدد کر کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کو بحری قزاقوں کی اس حرکت پر بڑاا غصہ اٰا اور وہ وارفتگی میں چلایا ہاں میں ایا اس واقعہ کے فورا بعد اس نے محمد بن قاسم کو سندھ کی طرف بھیجا جس کی حکمت عملی نے راجہ داہر کی فوج کو تہس نہس کردیا ایک مرتبہ کسی ریاست کے والی نے بنو امیہ کے حکمران عمر بن عبدالعزیز سے کہا کہ اہل حیرہ کے لوگ آئے دن بغاوتوں پر آمادہ رہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز نے کہاکہ ان کی تکریم کرو ان کے حقوق کا خیال رکھو اور ان پر ظلم نہ کرو اسلام کا ایک مضبوط اسلامی ریاست کا دوسرا اصول حقوق کی فراہمی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پسے ہوئے طبقوں عورت اور غلاموں کو حقوق عطا کئے عورت کی توقیر میں اضافہ ہوا جن معا شروں میں پسے ہوئے طبقات کو حقوق ملتے ہوں وہ مثالی معاشرہ ہوتا ہے تیسرا اصول برابری کا ہے بقول اقبال 
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز 
عرب معاشرے میں امیروں کے لئے کوئی اور قانون تھا اسلام نے امیر اور غریب کو ایک کٹہرے میں لاکھڑا کیا جن معاشروں میں امیر کے گناہ معاف ہو جائیں اور غریب کی پکڑ ہو وہاں انصاف کانہیں بربریت کا قانون ہوتا ہے اور آخری شق عفو درگزر ہے حضرت ابوبکر صدیق نے جب لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا کہ انتقامی کاروائیوں سے بچنا اور عفو ودرگز ر سے کام لینا کیونکہ اس سے باغیانہ عزائم کو فروغ ملتا ہے مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پربات کرتا نبی صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر نظام سیاست معاشرت معیشت اخلاق گویا کہ ہم ہر پہلو سے اصلاح کی جاسکتی ہے اج ہم بکھرے ہوئے ہیں بحیثیت قوم تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں ہمیں اپنے معاشرے کی تعمیر میں برابری انصاف رواداری اور عفو درگزر کی سخت ضرورت ہے

ای پیپر دی نیشن