غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا

Sep 29, 2023

فہمیدہ کوثر



 عرب کے وہ ریگستان جہاں ظلم وستم اپنے عروج پر تھا کوئی مربوط شکل میں تھا شہری مملکت مکہ جیسی ریاست کا وجود تو تھا لیکن انصاف کی فراہمی نا پید تھی عورتوں کو کوئی مقام حال نہیں تھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور جدید ملت اسلا میہ کا تصور چونکا دینے والا تصور چونکا دینے والا تصور تھا جس میں تکریم انسانیت پر زور دیاگیا تھا مذہب اسلام کاسارے کا سارا فلسفہ انسانیت کی تکریم اور عزت نفس کے گرد گھومتا ہے دنیا میں جہاں جہاں گئے اسی نظریہ کو لے کر گئے اور فتح حاصل کی محمد بن قاسم تین ہزار لوگوں کو اپنے ساتھ لے کرگیا تھا آگے چل کر اس کا مقابلہ راجہ داہر تھا راجہ داہر کو کسی نجومی نے بتایا تھا کہ تیری حکوت کا خاتمہ ایک انصاف پسند شخص کے ہاتھوں سے ہوگا جو غلامی سے زیادہ آزادی پر یقین رکھتا ہے جب اس نے مخمد بن قاسم کی آمد کے بارے میں سنا تو ?عظیم لشکر تیا کرنے کا تھا محمد بن قاسم کے پاس لوگوں کا دل جیتنے اور انہیں امان دینے کا ایک مضبوط نظریہ تھا اور یہ تصور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر دیا
جو تلوار بھینک دے اسے امان ہے
مظلوموں پر ظلم نہ کرنا
عورتوں اور بچوں کو غیط وغضب اور تلوار کا نشانہ نہ بنانا 
جو من چاہے اسے امن دینا
 سراندیپ کے راجہ نے تحفے تحائف اور بہت سی غلام عورتوں کو ایک بحری بیڑے کے ذریعہ مسلمانوں کی طرف بھیجا تو بحری بیڑے کو دیبل کے مقام پر بحری قزاقوں نے لوٹ لیا اس پر ایک عورت چلائی اے حجاج میری مدد کر کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کو بحری قزاقوں کی اس حرکت پر بڑاا غصہ اٰا اور وہ وارفتگی میں چلایا ہاں میں ایا اس واقعہ کے فورا بعد اس نے محمد بن قاسم کو سندھ کی طرف بھیجا جس کی حکمت عملی نے راجہ داہر کی فوج کو تہس نہس کردیا ایک مرتبہ کسی ریاست کے والی نے بنو امیہ کے حکمران عمر بن عبدالعزیز سے کہا کہ اہل حیرہ کے لوگ آئے دن بغاوتوں پر آمادہ رہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز نے کہاکہ ان کی تکریم کرو ان کے حقوق کا خیال رکھو اور ان پر ظلم نہ کرو اسلام کا ایک مضبوط اسلامی ریاست کا دوسرا اصول حقوق کی فراہمی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پسے ہوئے طبقوں عورت اور غلاموں کو حقوق عطا کئے عورت کی توقیر میں اضافہ ہوا جن معا شروں میں پسے ہوئے طبقات کو حقوق ملتے ہوں وہ مثالی معاشرہ ہوتا ہے تیسرا اصول برابری کا ہے بقول اقبال 
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز 
عرب معاشرے میں امیروں کے لئے کوئی اور قانون تھا اسلام نے امیر اور غریب کو ایک کٹہرے میں لاکھڑا کیا جن معاشروں میں امیر کے گناہ معاف ہو جائیں اور غریب کی پکڑ ہو وہاں انصاف کانہیں بربریت کا قانون ہوتا ہے اور آخری شق عفو درگزر ہے حضرت ابوبکر صدیق نے جب لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا کہ انتقامی کاروائیوں سے بچنا اور عفو ودرگز ر سے کام لینا کیونکہ اس سے باغیانہ عزائم کو فروغ ملتا ہے مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پربات کرتا نبی صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر نظام سیاست معاشرت معیشت اخلاق گویا کہ ہم ہر پہلو سے اصلاح کی جاسکتی ہے اج ہم بکھرے ہوئے ہیں بحیثیت قوم تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں ہمیں اپنے معاشرے کی تعمیر میں برابری انصاف رواداری اور عفو درگزر کی سخت ضرورت ہے

مزیدخبریں