اسرائیل امن معاہدے کی بازگشت

 حکیمانہ ....حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

27 ستمبر بدھ کو یہ خبر بھی سننا پڑی کہ اعلانیہ طور پر اسرائیلی وزیر سیاحت ہائم کانز عالی کانفرنس ٹورازم 2023 میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ پروٹول میں اسرائیلی مہمان کی آو¿ بھگت دراصل اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی پیش بندی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی وزیر سیاحت نے کانفرنس کے شرکت کے دوران شریک اسلامی ممالک کے وزراءسے ملاقاتیں بھی کیں۔ رواں ہفتے میں اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلن کوین نے نیو یارک میں انکشاف کیا کہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر دستخط ہو جاتے ہیں تو مزید چھ یا سات مسلم ممالک ایسا معاہدہ کرسکتے ہیں انہوں نے اشارہ دیا کہ یہ مسلم ممالک افریقہ اور ایشیاءسے متعلق ہیں انہوں نے ان اسلامی ممالک کا نام بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کچھ اسلامی ممالک کے ساتھ اسرائیل کا براہ راست رابطہ رہا ہے۔ امریکہ میں موجود پاکستانی وزیرخارجہ جلیل عباس نے واضع کر دیا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات اور فلسطینی عوام کے حقوق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرے گا۔ عالمی میڈیا میں اسرائیلی وزیرخارجہ کے دعوی اور وزیر سیاحت کی سعودی عرب آمد کو غیر معمولی اہمیت دی گئی، یوں دکھائی رہا ہے کہ مسلم امہ اسرائیل کے حوالے سے اپنے تاریخی موقف میں لچک دکھا رہی ہے۔ کبھی او آئی سی کے لیے اسرائیل” ناجائز ریاست“ ہوا کرتی تھی اور آج یہ حال ہے کہ مسلم لیڈر شپ امن تعلقات کی آڑ میں اسے تسلیم کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔
 ایرانی صدر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اسرائیل کی وحشت اور بربریت کی داستان بیان کررہے تھے تو اسرائیل مندوب تقریر کے دوران بار بار خلل ڈالتا رہا وہ ایک چارٹ اٹھا کر ایران میں تحفظ خواتین حقوق کے نعرے بلند کرتا رہا۔ بالآخر سیکورٹی کی مدد سے اسرائیلی مندوب کو باہر نکلوانا پڑا....یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب انور سادات نے 1979 میں اسرائیل کا دورہ اوراس کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تو عرب لیگ نے مصر کا حقہ پانی بند کر دیا ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے بھی نکال دیا گیا مگر امریکہ نے اسرائیل سے تعلق قائم کرنے کے عوض نہ صرف مصر کو سیکورٹی کی ضمانتیں دیں، مقبوضہ جزیرہ نما سینا سے اسرائیل کا قبضہ چھڑایا بلکہ اربوں ڈالر سالانہ امداد بھی باندھ دی۔ انیس سو چورانوے میں اردن نے بھی اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔ اسرائیل سے متصل شام اور لبنان آج بھی تکنیکی اعتبار سے اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں جانتا جب دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی نہ ہوتی ہو۔ اسرائیل کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ سعودی عرب کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ یہ امریکہ کے لئے بھی مشرق وسطی میں سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہو گی۔ 2002 میں شاہ فہد نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ اگر اسرائیل 1966اکی جنگ سے قبل کی حدود میں واپس چلا جائے. مغربی کنارے، غزہ اور شام کی گولان پہاڑیوں کا قبضہ چھوڑ دے توسعودی عرب اسرائیل کو سفارتی درجہ دے سکتا ہے۔آج فہد منصوبے کے بائیس برس بعد زمینی حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی خود مختاری کے بارے میں 1992 میں ہونے والا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ گہر ادفن ہو چکا ہے۔ یہ معاہدہ کروانے والے بل کانمان تو زندہ ہیں مگر دو دستخط کنندہ ای تزاک را بین اور یاسر عرفات اس دنیا میں نہیں۔ معاہدے کے مطابق اگلے پانچ برس میں نہ صرف فلسطینی ریاست قائم ہوئی تھی بلکہ غرب اردن میں یہودی آباد کاری بھی منجمد ہو جانی چاہئے تھی۔ آج 31 برس بعد اسرائیلی آباد کار بستیوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔ ان بستیوں اور بچے کھچے فلسطینی دیہاتوں کے درمیان ایک طویل دیوار کھینچی جاچکی ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے بے دخلی کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور فلسطینی اتھارٹی کا اقتدار اعلی اتنا ہی باقی ہے جتنا کہ کسی عام قصبے کی بلد یہ کے پاس ہے۔ اس بے اختیاری کے سبب عام فلسطینی بھی اپنی اپانچ اتھارٹی سے بیزار ہو چکا مگر اس کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا۔ جبکہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے جس کے دس لاکھ سے زائد مکینوں کو آئے دن بہانے بہانے سے مار پڑتی ہے۔ ایسے ماحول میں جب مصر اور اردن کے بعد بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے ہاتھ ملا لیا تو فلسطینی نا قابل بیان تنہائی کا شکار ہو گئے۔ اب ان کی سودے بازی کی پوزیشن اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اس پر بھی رضامند ہیں کہ سعودی عرب بے شک اسرائیل سے تعلقات استوار کر لے مگر کم از کم غرب اردن کا وہ علاقہ (ایریاسی ) جو اسرائیل نے مکمل طور پر ہتھیا لیا ہے فلسطینی اتھارٹی کو واپس دلوادے۔
اسرائیل تسلیم کرنے کے کا یہ سلسلہ آج کا نہیں، امریکہ ایک عرصے سے اپنے اس ایجنڈے پر کاربند ہے وہ بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب نظر آرہا ہے پاکستان کا جوابی موقف خود ”نرم گوشہ“ کی نشاندھی کرہا ہے” اگراسرائیل فلسطینی لیڈر شپ اور عوام کو مطمعن کر دے تو امن معاہدے میں پیش رفت ہوسکتی ہے“اب ذرا 24 ستمبر کی صورت حال دیکھیں، اسرائیلی فورس نے سرچ آپریشن کے جواز پر دو فلسطینی نوجوان شہید کر دئیے گزشتہ چھ دن کے دوران آٹھ فلسطین نوجوان شہید کئے گئے یہ ہے اسرائیل کا وہ بھیانک چہرہ جو مسلم لیڈر شپ کو نظر نہیں آرہا!! ہم عرض گزار ہیں کہ مسلم حکمران اور مسلم قیادت اسرائیل سے تعلقات امن کی بحالی میں جلد بازی نہ کرے، اجتماعی موقف کا اظہار اور اجتماعی مفادات کے تحفظ سے ہی ہم اپنی منزل پر جاسکتے ہیں عجیب اتفاق ہے کہ پوری امت مسلمہ اسرائیل سے نفرت کررہی ہے جب کہ مسلم حکمران اس معاملہ میں برعکس موقف کی حامل ہیں ۔”ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“

ای پیپر دی نیشن