قلم زاریاں
محمد الطاف طاہر دومیلوی
altaftahir333@gmail.com
قارئین سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر ٹھہراآزادی کے بعد میرا پیارا وطن مسائل کی دلدل میں ایسا پھنسا کہ برسوں سے کوشش کے باوجود نکل نہیں رہا جس پر دل روتا ہے آنکھ اشکبار اور قلم لرزاں ہے ابن آدم سر بکف ہے 1947ءکے لمحات اور گھڑیاں مسرور وشادماں تھیں لیکن بدقسمتی سے دستور سازی پر توجہ نہ دی گئی اور سیاسی عدم استحکام میرے وطن کا مقسوم بنا اور نااہل قیادت کی وجہ سے حکومتیں جھٹ پٹ تبدیلی کا شکار ہوتی چلی گئیں اور ان حالات کی وجہ سے گورنر جنرل غلام محمد نے 24اکتوبر1954ءکودستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی اور نئی اسمبلی کا قیام کا اعلان کر دیا دستور سازی کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی تھی کہ ملک کا ایک مغربی حصہ چار صوبوں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں جبکہ مشرقی حصہ ایک صوبے پر مشتمل تھا اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنا دیا گیا اور اس کو ون یونٹ کا نام دیا گیا اس طرح دستور سازی کا کام کافی حد تک آسان ہوا نو منتخب وزیر اعظم چودھری محمد علی نے استور سازی کی طرف توجہ دی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور دستور سازی اسمبلی نے 1956ءکے نئے آئین کی منظوری دی جس کے مطابق پاکستان اسلامی جمہوریہ قرار پایا اور وفاقی پارلیمانی نظام قائم ہوا قارئین یہ آئین اڑھائی سال تک نافذ رہا اور 1958ءکو جمہوریت پر قاری ضرب لگاتے ہوئے مارشل لا نافذ کرکے اقتدار سنبھال لیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی 1962ءکا آئین جنرل ایوب کی کوشش سے نافذ ہوا پھر ایوبی دور حکومت کا عوامی تحریک و مطالبے پر خاتمہ ہوا اور اقتدار آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل محمد یحییٰ خان کو سونپ دیا اس نے 1969ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور آئین منسوخ کر دیا گیا 1970ئ کے انتخابی معرکے میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئیں حکومت بنانے کا موقع نہ ملنے پر مشرقی پاکستان میں اچانک ہنگامے پھوٹ پڑے اور فوج حالات پر قابو نہ پا سکی 16دسمبر 1971ءکو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک بن گیا پھر یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کیا 1977ءکے انتخاب میں پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی اور بھٹو نے 14اگست 1973ءجو پاکستان کا تیسرا آئین نافذ کیا بھٹو حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کی تحریک چلائی خراب حالات کے جواز پر بری فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے 5جولائی 1977ےکو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا قومی وصوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ضیاء اقتدار کے مزے لینے لگا بھٹو کو ایک ایک سازش کے تحت قتل کے مقدمہ میں نامزد کر کے آخر کار عوام کے محبوب لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا اس عدالتی قتل کو برسوں بعد سپریم کورٹ نے انصاف دیا جمہوریت کا قتل کا سلسلہ بے نظیر بھٹو ،نوا ز شریف سے ہوتا ہوا اب بھی جاری دکھائی دیتا ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے سیاسی روا داری کا فقدان ہے عمران خان کے دور حکومت سے چور چور ڈاکو ڈاکو کی صدائیں شروع ہوئیں اور اب بھی جاری ہیں ملک میں ایک عدم استحکام کی فضا ہے سیاسی جماعتوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہی گردان وہی الزام تراشی عوام مہنگائی نوجواں بے روز گاری کا رونا دھونا کر رہے ہیں سیاسی اقتدار بچانے اور اپوزیشن اقتدار لینے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے پاک فوج دہشگردوں کیساتھ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ملک میں امن کے لئے کوشاں ہے سیاسی جماعتوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور ملک وقوم کے مفاد کے لئے ملک کے استحکام کے لیے ملکی سلامتی کے لئے مل جل کر ملک وقوم کو مسائل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے یہی وقت کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضا ہے
سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر کیوں ؟
Sep 29, 2024