غزہ، کشمیر اور وزیر اعظم کی تقریر


لقمان شیخ
روبرو
وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تقریر کی جس میں انھوں نے فوری طور پر عالمی مسائل کے حل بات کی۔وزیر اعظم نے عالمی برادری کی توجہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں، حل نہ ہونے والے تنازعہ کشمیر، عالمی موسمیاتی بحران اور عالمی برادری کی انصاف اور انسانی حقوق کی پاسداری مرکوز کروائی.
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب کا آغاز تلاوت قرآن سے کیا اور جنرل اسمبلی میں دوسری بار پاکستان کی نمائندگی کرنے پر فخر کا اظہار کیا۔ انہوں نے یو این جی اے کے نومنتخب صدر ڈینس فرانسس کو مبارکباد دی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے پاکستان کی ثابت قدمی کے عزم کا اعادہ کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے بانی بابا قائداعظم محمد علی جناح نے اعلان کیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ کھڑا ہے اور ہم دنیا کے لیے امن اور خوشحالی کے لیے پرعزم ہیں. وزیراعظم نے غزہ پر اسرائیل کی جاری بمباری کی مذمت کرتے ہوئے اس صورتحال کو "نسل کشی جنگ" اور انسانی تباہی قرار دیا۔ انہوں نے فلسطینی شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے مصائب کی واضح تصویر کشی کرتے ہوئے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ شہبازےشریف نے کہا کہ "ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں جب ہم ارض مقدس میں رونما ہونے والی تباہی دیکھتے ہیں. غزہ میں معصوم لوگوں کا منظم طریقے سے قتل کیا جا رہا ہے.
شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس خونریزی کو روکے اور دو ریاستی حل کے ذریعے ایک پائیدار امن کے لیے کام کرے، انھوں نے 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا، جس میں مشرقی یروشلم (القدس الشریف) اس کا دارالحکومت ہو. انھوں نے مزید کہا کہ کیا ہم اس بات پر خاموش رہ سکتے ہیں جب بچے اپنے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوں، غزہ کے بچوں کے خون سے نہ صرف ظالموں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں بلکہ ان لوگوں کے بھی جو اس ظالمانہ تنازعے کو طول دینے میں شریک ہیں۔“
وزیراعظم نے فلسطینیوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
شہباز شریف نے فلسطینی عوام کی حالت زار اور حق خود ارادیت کے لیے کشمیری عوام کی دہائیوں سے جاری جدوجہد کے درمیان مماثلتیں کھینچیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے میں جاری جبر پر بھارت پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں کو نظر انداز کر رہا ہے جس میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود تعین کرنے کی اجازت دینے کے لیے استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ”فلسطین کے لوگوں کی طرح جموں و کشمیر کے لوگوں نے اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے ایک صدی تک جدوجہد کی ہے۔“
انہوں نے 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت کے اقدامات کی مذمت کی، جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا، اور نئی دہلی پر الزام لگایا کہ وہ خطے کی آبادیاتی ساخت کو غیر قانونی طور پر تبدیل کر کے "حتمی حل" مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شہباز شریف نے خطے میں ہندوستان کے تقریباً دس لاکھ فوجیوں کے استعمال کو ایک "کلاسک آبادکار نوآبادیاتی منصوبے" کے طور پر بیان کیا، جو مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا. انہوں نے کہا کہ آئے دن 900,000 بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ظالمانہ اقدامات، طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں نوجوان کشمیریوں کے اغوا کے ذریعے دہشت زدہ کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے ہندوستان کو سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار کسی بھی جارحیت کا "فیصلہ کن جواب" دے گا، پائیدار امن کو محفوظ بنانے کے لیے، بھارت کو اگست 2019 کے بعد سے اٹھائے گئے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینا چاہیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کے لیے بات چیت میں داخل ہونا چاہیے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر شریف نے عالمی برادری سے انصاف اور مساوات کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا، اس بات پر زور دیا کہ "کمزور بے آواز نہیں ہیں" اور عالمی مساوات اور خوشحالی کے وعدے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ شہباز شریف نے کہا، "آئیے ہم اس ہال کو اپنے لوگوں کے لیے ایک پیغام کے ساتھ چھوڑتے ہیں - کہ مظلوم کو امید نہیں ہارنی چاہیے، غربت پہلے سے طے شدہ نہیں ہے، اور یہ کہ سب کے لیے انصاف اور مساوات کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے شہباز شریف کا خطاب پائیدار اور جاندار تھا. پاکستانی وفد کا اسرائیل کے وزیر اعظم کے خطاب پر واک آوٹ کرنا اسکے منہ پر طمانچہ رسید کرنے کے مترادف تھا. عالمی برادری کے سامنے شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم پاکستان اپنا موقف شاندار طریقے سے بیان کیا. نظریاتی اختلافات سے بالا تر ہو کر وزیر اعظم اور انکی ٹیم آئی ایم ایف کے بیل آو¿ٹ پیکج حاصل کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں.

ای پیپر دی نیشن