فلک نے پھیر لیں آنکھیں، زمیں کرنے لگی تنگی

فیض عالم 
قاضی عبدالرﺅف معینی
عصر حاضر میں مسلم دنیا گزشتہ کئی صدیوں سے ،المناک ،بد ترین اور ذلت آمیز حالات سے دو چار ہے۔اس صورت حال سے ہر کوئی پریشان، بے چین و مضطرب ہے۔ہر حساس اوردرمند مسلمان حد درجہ تشویش میں مبتلا ہے اور ان کا دل اس زبوں حالی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔مسلمان بظاہر آزاد ہیں لیکن اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے، معاشی حالات انتہائی خراب ہیں ایک تہائی سے زیادہ مسلمان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کو پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہیں ۔بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مسلمان غیروں کے محتاج اور مقروض ہیں۔افسوس صد افسوس کہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں خود کفیل نہیں ۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی تو دور کی بات ہے جدید بنیادی علوم سے کوسوں دور ہیں۔ اخلاقی ابتری کا تو کچھ نہ پوچھیں لوگ صرف تعارف سن کر ہی بھاگ جاتے ہیں ۔مسلمانوں کی اکثریت ذاتی کردار کے حوالے سے انتہائی پست اور ناقابل بیان حالات میں مبتلا ہیں۔جب کبھی بھی کرپٹ ترین ممالک کی فہرست بنتی ہے تو سر فہرست مسلم ممالک ہی کیوں ہوتے ہیں ۔حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں ۔سانحہ یہ ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔پیارے پڑھنے والے چند صدیاں قبل توحالات ایسے نہیں تھے ۔ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ جب مسلمانوں کی عزت تھی ،وقار تھا، دنیا کے فیصلے مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے ، غیر مسلم حکمراں دہشت زدہ تھے ، مسلمانوں کے علوم و فنون کا ہر طرف چرچا تھا ۔بقول حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
تمدن آفریں ، خلاق آئین جہاں داری 
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارہ 
حقیقت یہ ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان زمانے میں اس لیے معزز تھے کیونکہ وہ نہ صرف قرآن پاک کے قاری تھے بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرتے تھے اور کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر 
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر 
ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تعلیم و تربیت کے جس انقلاب کا آغاز ہوا اس نے مسلمانوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی کی ،اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا، مسلمانوں نے علوم و فنوں میں مہارت پیدا کی اور پھر کئی صدیوں تک پوری دنیا پر حکمرانی کی۔پھر یوں ہوا کے مسلمان عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے ، سنہری تعلیمات کو فراموش کر دیا اور علوم و فنون سے کی سرپرستی ختم ہو گئی۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی 
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھایا ہوا سبق بھلا دیاگیا ۔مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے دلداہ ہوگئے ۔ہماری تہذیب و ثقافت پر یلغار ہوئی۔نئی نسل کے عقیدہ و ایمان کے حوالہ سے عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری مسلمان دنیاایک ہمہ گیر اور مسلسل زوال کا شکار ہو چکی ہے۔کاش یہ حقیقت مسلم امہ کو معلوم ہو جائے کہ 
خلاف پیمبر کسے راہ گزید 
کہ ہر گز بمنزل نہ خواہد رسید
اس سبق آموز فارسی شعر کا ترجمہ ہے کہ 
خلاف راہ پیغمبر قدم جو بھی اٹھائے گا
کوئی منزل نہ دیکھے گا، کوئی رستہ نہ پائے گا
انتہائی بد قسمتی کہ اب جب مسلمانوں نے راہ پیغمبر کو چھوڑ دیا ہے تو خجل خواری ، ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے۔
عدول حکم ہادی نے دکھلائی یہ نیرنگی 
فلک نے پھیر لیں آنکھیں زمیں کرنے لگی تنگی
ہم یہ سبق بھول گئے یا ہمیں یہ سبق بھلا دیا گیا ہے کہ باعزت اور باوقار زندگی کی کنجی صرف اور صرف ایک ہے اور وہ قرآن پاک اور اسوہ رسول ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم داعی اعظم، ہادی اعظم ، معلم اعظم اور محسن انسانیت ہیں۔عالم اسلام کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سب سب کا حل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیا ں قبل عملی طور پر بیان کر دیا۔مسلمان اگراپنے شاندار ماضی کو واپس لانا چاہتے ہیں تو انہیںاپنی زندگی قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوہ رسول کے مطابق گزارنا ہو گی کیونکہ اس راستہ پر چلنے والا کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔دنیا و آخرت کی بھلائی اسی سے نصیب ہوگی۔جب تک ہم یہ نہیں کریں گے تب تک کامیابی مقدر نہیں بن سکتی۔

قاضی عبدالرؤف معینی

ای پیپر دی نیشن