اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ تاریخی، سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی آمدن کا بڑا ذریعہ کھیتی باڑی اور صنعتیں ہیں۔ یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔ جس سے ہمیں اعلیٰ معیار کی گندم اور چاول حاصل ہوتا ہے۔ یہاں کے تعلیمی انسٹی ٹیوشنز بھی بہت کمال کے ہیں۔ ہر طرف سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لوگوں کی اکثریت خواندہ ہے۔ خواندگی کے سبب لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہے۔ تاہم یہاں ہر طرح کے جرائم بھی ہوتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں عام ہیں۔ یہاں جرائم کرنے والے گینگز بھی ہیں جو منظم طریقے سے وارداتیں کرتے ہیں۔ مقدمات کا اندراج ہو تو گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں۔ بعد از گرفتاری ملزمان کو جیل بھی جانا پڑتا ہے جس کے لیے صوبہ میں 43جیلیں بنی ہوئی ہیں۔ جن میں جرم کرنے والے بچوں کے لیے بورسٹل جیل جبکہ خواتین ملزمان کے لیے ویمن جیلز بھی شامل ہیں۔ جہاں انہیں رکھا جاتا ہے اور سزا کے دن گزارے جاتے ہیں۔
جیل کی اپنی ایک دنیا ہے۔ یہاں قید ہو کر آنے والوں کا رابطہ باہر کی دنیا سے کٹا ہوتا ہے۔ جیل کے شب و روز بہت مشکل ہوتے ہیں۔ جن کا سامنا ہر قیدی کو کرنا پڑتا ہے۔ جیلوں کی اپنی ایک فورس ہے جو جیل میں قید ملزمان یا مجرمان کی حفاظت کے لیے مامور ہے۔ جیل کا حصار بہت مضبوط ہوتا ہے جس سے کوئی قیدی نہیں بھاگ سکتا۔ اب یہاں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصیب کر دئیے گئے ہیں جن کو خصوصی روم سے مانیٹر کیا جاتا ہے۔ قیدی کیا کر رہے ہیں؟ اُن کی ہر نقل و حرکت پر کیمروں کی نظر ہوتی ہے۔
لاہور پنجاب کا کیپٹیل ہے۔ یہی وہ ضلع ہے جہاں جیلخانہ جات کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ آئی جی جیلخانہ جات اسی ہیڈ کوارٹر میں قیام کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر صوبہ کی 43جیلوں کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔ میاں فاروق نذیر آج کل آئی جی جیلخانہ جات ہیں۔ اچھی کارکردگی کی بنیاد پر تیسری بار اس عہدہ پر متمکن ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب کا اُن پر یہ اندھا اعتماد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ میاں فاروق نذیر اچھے اوصاف کے مالک ایک اعلیٰ پائے کے افسر ہیں۔ ورنہ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ آئی جی عہدہ کا کوئی افسر دوسری یا تیسری بار اس عہدہ پر براجمان نہیں ہوا۔
میاں فاروق نذیر کے ایسے وہ کون سے کام ہیں جن کی بدولت وہ چیف منسٹرکے پسندیدہ افسر بن گئے؟ میاں فاروق نذیر 2008ءمیں پہلی بار آئی جی جیلخانہ جات پنجاب کے عہدہ پر تعینات ہوئے اُن کی یہ تعیناتی 2009ءتک رہی۔ بعدازاں 2012ءمیں انہیں ایک بار پھر آئی جی جیلخانہ جات بنا دیا گیا۔ اس بار اُن کی تعیناتی کا دورانیہ پانچ سال تھا۔ یعنی 2012ءسے 2017ءتک وہ اس عہدہ پر متمکن رہے۔ تیسری بار 2023ءمیں انہیں ایک بار پھر آئی جی جیلخانہ جات بنایا گیا۔ حکومت پنجاب نے اس سال (2024)انہیں پروموٹ بھی کر دیا ہے۔ فاروق نذیر 22ویں گریڈ میںپروموٹ ہونے والے محکمہ جیلخانہ جات پنجاب کے واحد افسر بن گئے ہیں۔میاں فاروق نذیر کے پہلے دونوں ادوار میں پنجاب کی جیلوں میں جو اصلاحات ہوئیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ جیل کی بیٹ کرنے والے رپورٹرز اور جیلوں کے احوال سے آشنا شخصیات اس بات سے اچھی طرح باخبر اور آگاہ ہیں کہ میاں فاروق نذیر نے پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی بہتری اور فلاح کے لیے جتنا کام کیا وہ کوئی اور نہ کر سکا۔
انہوں نے جیلوں میں سینکڑوں واٹر فلٹریشن لگوائے، ہزاروں کمبل تقسیم کروائے،پانچ سو سے زائد پینے کے پانی کے الیکٹرک کولر لگوائے ،بیمار قیدیوں اور حوالاتیوں کے لیے ایمبولینسز خریدیں،اڑھائی ہزار سے زائد قیدیوں کے جرمانوں اور دیت کی رقوم کا انتظام کرکے انہیں بری کروایا۔25جیلوں کے اندر ٹیکنیکل تعلیم (ٹیویوٹا) کے مراکز قائم کروائے۔تما م جیلوں کو لوڈ شیڈنگ فری بنایا۔این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 11ہزار سے زائد بھرتیاں کیں۔جیل ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے پنجاب پریزنز فاونڈیشن قائم کی۔جیل ہسپتالوں کو بہترین اور جدید طبی سہولتوں سے آراستہ کیا۔قیدیوں کی دماغی حالت اور دیکھ بھال کے لیے ایک سو سے زائد سائیکالوجسٹ بھرتی کئے۔پہلی بار جیلوں میں قیدیوںکو ٹیلی فون کی سہولت قانونی طورپر بہم پہنچائی ۔بیرون ملک مقیم لواحقین کو ویڈیو کال کی سہولت دی۔پہلی بار ہی قیدیوں کو تعلیمی اور تفریح مقاصد کے لیے محفوظ انٹرنیٹ فراہم کیا۔قیدیوں کی چھوٹ کے دورانئے کو بڑھایا۔اچھی کارکردگی کے حامل ملازمین کو اعزازیہ دیا۔جیل ملازمین کے بچوں کے لیے شادی گرانٹ اور فوتیدگی کی گرانٹ میں اضافہ کیااور مہلک بیماریوں کے شکار ملازمین کو میڈیکل کی سہولت دی۔
میاں فاروق نذیر ہی ہیں جنہوں نے پہلی بار عید کے مواقعوں پر قیدیوں کو لواحقین سے ملنے کی سہولت فراہم کرکے ان کے دل جیت لیئے اور پنجاب میں بچوں کی جیلوں کو بحالی مراکز میں تبدیل کیا۔ جیلوں کو مزید محفوظ بنانے کے لیے جیلوں کے اندر اور باہر 5ہزار جدید کیمرے نصب کرائے تاکہ یہاں ہونے والی تمام نقل و حرکت کو جدید کیمروں کی مدد سے مانیٹر کیا جا سکے۔جو بہت ہی حساس جیلیںہیں۔وہاں معمول سے ہٹ کر اضافی کیمروں کی تنصیب کرائی تاکہ ہر چیز کا جائزہ باریک بینی سے لیا جا سکے۔
میاں فاروق نذیر جیل خانہ جات پنجاب کے واحد افسر ہیں جو یہ فکر کرتے ہیں کہ اگر کوئی جیل میں ہے تو اُسے یہاں سے اپنی سزا پوری کرنے کے بعد ایک اچھا انسان بن کے باہر نکلنا چاہیے۔ جرم سے نفرت جس کی پہچان ہو۔فاروق نذیر نے پنجاب کی مختلف جیلوں میں مختلف نوعیت کی پانچ انڈسٹریز بھی قائم کی ہیں۔ تاکہ قیدی جتنا عرصہ جیل میں رہیں کوئی بہتر ہنر سیکھ سکیں۔ جیل سے باہر جائیں تو اُن کے پاس ایسا ہنر ہو کہ اپنا روزگار باعزت طریقے سے کما سکیں۔ جیلوں میں جو انڈسٹریز قائم کی گئیں اُن میں پرنٹنگ پریس، ٹف ٹائلز، فرنیچر، قالین سازی اور برتنوں کی تیاری شامل ہے۔ نیز قیدیوں کو جیلوں میں اُن کی چوائس اور خواہش کے مطابق الیکٹریشن، کارپینٹر، حجام اور پلمبر کا کام بھی سکھایا جاتاہے۔تاکہ جیل سے رہائی کے بعد انہیں روزگار میں کوئی مشکل نہ ہو۔ جیلوں کی یہ ایسی ریفارمز ہیں جو میاں فاروق نذیر سے پہلے کسی نے نہیں کیں۔ اسی لیے قیدیوں اور جیل سٹاف میں وہ مسیحا کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ لوگ اُن کا نام بڑی عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔