پسینے کی وجہ سے جیل میں کپڑے گل جاتے ہیں، بانی پی ٹی آئی۔
ان کی طرف سے جلسے کی بجائے احتجاج کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔معلوم نہیں بانی پی ٹی آئی نے جلسے نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا جبکہ کل تک وہ عدالتوں سے جلسوں کی اجازت مانگتے پھر رہے تھے۔ اب اچانک اپنے سیکرٹری اطلاعات رو¿ف حسن کو فارغ کر کے انہوں نے یہ نیا پینترا بدلا ہے۔ معلوم نہیں کب نیا اعلان جاری ہو کہ فلاں جگہ فلاں دن احتجاج ہوگا۔ اس پریکٹس سے چلو پارٹی کے کارکنوں کا لہو گرم رہتا ہے البتہ رہنما?ں کو گرفتاری کا خوف کھائے جاتا ہے اس لئے وہ پہلے ہی ضمانت قبل از گرفتاری کراکے جان بچانے کا بندوبست کرینگے تاہم انکے نئے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اس لئے تو کہہ رہے ہیں کہ راولپنڈی میں جلسہ نہیں احتجاج ہوگا۔ انکی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات چیت سے انکی تنگ آمد بجنگ آمد والی حالت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے شکایت کی ہے کہ وہ 21 گھنٹے چکی میں بند رہتے ہیں‘ وہاں پسینے کی وجہ سے انکے کپڑے تک گل جاتے ہیں۔ اب عدالت کو چاہیے کہ وہ ان کو دی گئی ناکافی سہولتوں کا جائزہ لے اور انہیں مناسب سہولتیں فراہم کرے جس کا حکومت دعویٰ کرتی ہے۔ ورنہ ان کا پارہ یونہی ہائی ہوتا رہا تو خدا جانے آئندہ وہ احتجاج سے بھی زیادہ سخت اقدامات کا اعلان نہ کر دیں۔ ایک طرف کہیں سے بلاوا نہ آنے کا غم دوسری طرف فضل الرحمان کے بدل جانے کی فکر‘ تیسری طرف اسرائیلی اخبارات میں ان کا ذکر خیر انکی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اب اگر عدالتوں کی طرف سے ٹھنڈی ہوا نہیں آئی تو واقعی انکے غصہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انکے حامی بہرحال انہیں مرشد کا درجہ دیتے ہیں اور انکے ایک اشارے پر باہر نکل کر احتجاج کو تیار رہتے ہیں۔ جبکہ پارٹی رہنماﺅں کو اپنی فکر لگی رہتی ہے جس کا علاج کپتان کے پاس بھی نہیں ہے۔
چاہت فتح علی خان نے انگریزی میں بھی گلوکاری شروع کر دی۔
خدا خیر کرے‘ ابھی اردو گانوں اور پنجابی نغموں کی شکل بگاڑنے کے بعد اب انگریزی کی بھی شامت آنا باقی تھی جو چاہت علی خان جیسے مسخرے گلوکار نے منہ بنا بنا کر اب انگلش سونگز کا جو حشر کرنا ہے‘ وہ سب دیکھ لیں گے۔ کہتے ہیں ایک پاکستانی غلط سلط انگریزی بولنے کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ باربار منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتا تھا۔ بار بار اصرار کے بعد آخر ایک دن وہ کہہ ہی پڑا کہ میں جان بوجھ کر اس لئے منہ بگاڑ بگاڑ کر غلط انگریزی بولتا ہوں تاکہ انگریزوں سے انتقام لے سکوں۔ جو منہ بنا بنا کر غلط سلط اردو بولتے ہیں‘ یوں حساب برابر کررہا ہوں۔ اب یہ تو چاہت کی انگریزی میں گانے دیکھ کر سن کر ہی پتہ چلے گا کہ وہ گا رہے ہیں یا رو رہے ہیں کیونکہ کلاسیکل انگریزی نغمے کو خاصی لمبی لے کے ساتھ سازو آواز کے اتار چڑھاﺅکے سب خاصے رونے دھونے والے خوفناک منظر کی طرح دل دہلا دیتے ہیں۔ ایک ایک س±ر یوں کھینچتے ہیں گویا روح ہی بدن سے کھینچی جا رہی ہو۔ امید ہے ایسے اوٹ پٹانگ گانے چاہت نہایت خوش اسلوبی سے گا کر پرانے انگریزی گلوکاروں اور موسیقاروں کی روح کو تڑپا دیں گے اور خطرہ ہے کہیں کوئی عالم برزخ سے نکل کر چاہت پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ یوں انگریزی‘ اردو اور پنجابی کا کوئی نیا خونیں خوفناک نغمہ تیار نہ ہو جائے جس کو سننے والے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر گلوکار پر ہی نہ ٹوٹ پڑیں۔ یوں ”اکھ لڑی بدوبدی“ کی جگہ ”جان کڈ لئی بدوبدی“ والا سین سٹیج پر نظر آئیگا۔ خدا جانے چاہت کو انگریزی گانوں پر طبع آزمائی یا چھری چلانے کا مشورہ کس نے دیا ہے۔ وہ ان کا دشمن تو ہو سکتا ہے‘ پر دوست نہیں۔
صدر کی طرف سے پس مرگ بابائے جمہوریت کیلئے نشان امتیاز کی سفارش۔
نوابزادہ نصراللہ خان پاکستانی سیاست کی وہ باغ و بہارشخصیت ہی نہیں‘ ایک شجر سایہ دار بھی تھے جس کے سائے میں بیٹھ کر آمریت کے خلاف لڑنے والے ظلم وجبر کی جھلسا دینے والی لو اور تمازت سے نجات پاتے تھے۔ آرام کا سانس لیتے تھے۔ ایوب خان کی آہنی آمریت ہو یا یحییٰ خان کی‘ جنرل ضیاءکا دور ظلمت ہو یا بھٹو کا جابرانہ دور حکومت‘ جب بھی عوام کے سر سے جمہوریت کی چھتری چھینی گئی‘ انہیں ظالمانہ آمرانہ تپتی دوپہر میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ سرعام کوڑوں سے پٹوایا گیا‘ پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا۔ انکی آواز دبائی گئی تو اپوزیشن جماعتوں کو ہمیشہ نکلسن روڈ پر نوابزادہ کے دفتر میں ہی جائے پناہ ملی۔ جہاں کا ساقی ان کا نامہرباں ساتھیوں میں بھی تشنہ لبوں کی جمہوریت کے چشمے سے جام بھر بھر پلاتے۔ عوام کی آواز بن جاتے اور سڑکوں پر خود بھی لاٹھیاں کھاتے مگر باز نہیں آتے اور جمہوری قافلے کی رہنمائی کرتے جبھی تو آپ کو بابائے جمہوریت کہتے ہیں۔ وہ زبانی کلامی نہیں‘ حقیقت میں بھی ہر طور پر ایسے ہی تھے۔ کسی آمر اس کا خوف جیل یا قید انکے پائے استقلال میں لغزش نہ لا سکا۔ یہ سب انکی جدوجہد کا حصہ تھاوہ ایک اچھے شاعر بھی تھے.
انکی مشہور غزل:
پھر شور سلاسل میں سرور ازل ہے
پھر پیش نظر سنت سجاد و لی ہے
کب اشک بہانے سے ٹلی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاﺅں سے ٹلی ہے
ہم راہ رو دشت بلا روز ازل سے
اور قافلہ سالار حسین ابن علی ہے
اس وقت کے حکمران آصف علی زرداری‘ میاں نوازشریف‘ شہبازشریف اور اپوزیشن سے زیادہ کون انکی خدمات کے بارے میں جانتا ہوگا۔ صدر مملکت کی طرف سے انکے لئے یہ اعزاز خود اس اعزاز کیلئے ایک اعزاز ہوگا۔
بارش نے بالآخر گرمی کو اذن رخصت دیدیا‘ حبس کا خاتمہ‘ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
اکتوبر کے آغاز میں جس طرح بارش برسانے والے سسٹم نے مختلف علاقوں میں انٹری کی۔ اس نے بالآخر جانے سے انکاری گرمی کو رخت سفر باندھنے پر مجبور کر ہی دیا۔ اس بار تو لگتا تھا گرمی نے واپسی کا ارادہ ہی ترک کر دیا ہے اور وہ مستقل ڈیرہ ڈالنے کے چکر میں ہے۔ ہم لوگ بھی بھولے بادشاہ ہیں‘ قدرت کے اشاروں کو سمجھتے ہی نہیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے عرصہ دراز سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور انسان کے اپنے ہاتھوں نظام فطرت میں جاری پے در پے مداخلت سے موسمیاتی تبدیلیوں نے جو تباہی مچائی ہے‘ اسکی وجہ سے موسم اپنے وقت سے آگے یا پیچھے ہو گئے ہیں۔ کچھ موسم سکڑنے لگے ہیں اور کچھ بڑھنے لگے ہیں۔ بدترین گلوبل وارمنگ کا شکار ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں گرمیاں بڑھ رہی ہیں اور موسم سرما کم ہو رہا ہے۔ پہلے ستمبر میں سردیاں ہوا کرتی تھیں‘ اب 15 اکتوبر کو خنکی کا احساس ہوتا ہے۔ گرمیاں مارچ سے لے کر ستمبر تک جوبن پر ہوتی ہیں۔ برسات اگست کی بجائے ستمبر میں آگیا ہے۔ یہ سب انسانوں کے ہاتھوں فطرت کے خلاف جنگ کا شاخسانہ ہے۔ ہم نے بھی سبزہ ختم کر دیا۔ پانی ضائع کر رہے ہیں‘ آلودگی پھلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ ہم سے موسم روٹھ گئے ہیں۔ ان میں شدت آگئی ہے۔ زمین بنجر ہو رہی ہے‘ اگر ہم نے بندوبست نہ کیا اور یونہی مست حال رہے تو ہمارا حال بھی افریقی ممالک کی طرح بدترین خشک سالی اور پانی کی کمی کے باعث قحط زدہ ممالک والا ہو سکتا ہے۔